
بائبل میں غلامی کے حوالے سے کچھ قوانین ملتے ہیں.
“اگر تو عبرانی غلام خریدے تو وہ چھ برس تک تیری خدمت کرے لیکن ساتویں برس وہ قیمت ادا کئے بغیر چلا جائے”
(خروج باب 21)
“اگر کوئی عبرانی بھائی، خواہ مرد ہو یا عورت، تمہارے ہاتھ بیچا گیا ہو اور وہ چھ سال تک تمہاری خدمت کرچکے تو ساتویں سال اس کو آذاد کردینا
اور جب اس کو آزاد کردو تو اسے خالی ہاتھ رخصت نہ کرنا بلکہ اپنے گلہ، کھلیان اور کولہو میں سے اسے دل کھول کر دینا۔ یاد رکھو مصر میں تم بھی غلام تھے اور خداوند تمہارے خدا نے تمہیں اس سے خلاصی بخشی۔ اس لیے آج میں تمہیں یہ حکم دے رہا ہوں”
(استثناء ، باب 15)
“جو کوئی دوسرے شخص کو اغوا کرے، خواہ اسے بیچ دے، خواہ اسے اپنے پاس رکھے اور پکڑا جائے تو ضرور مار ڈالا جائے”
(خروج باب 21)
” جب تم اپنے دشمنوں سے جنگ کرنے نکلو اور خداوند تمہارا خدا انہیں تمہارے ہاتھ میں کردے اور تم انہیں اسیر کرکے لے آؤ اور ان اسیروں میں سے کوئی حسین عورت دیکھ کر تم اس پر فریفتہ ہو جاؤ تو تم اس سے بیاہ کرلینا۔۔۔
اگر وہ تمہیں نہ بھائے تو جہاں وہ جانا چاہے اسے جانے دینا۔ تم اس کا سودا نہ کرنا، اس کے ساتھ لونڈی کا سا سلوک روا نہ رکھنا کیونکہ تم نے اسے بے حرمت کیا ہے” ( یعنی ازدواجی تعلقات قائم کیے ہیں)
(استثناء باب 21)
ان کے مقابل میں آیات جو استثنا باب پچیس میں انسانوں کو بطور غلام میراث کے طور اپنی اولاد کو دینے یا عمر بھر غلام بنانے کی ترغیب دیتی ہیں وہ وضعی محسوس ہوتی ہیں۔ جیسے سود موسوی شریعت میں بھی حرام قرار دیا گیا تھا مگر اس کو غیر اسرائیلی سے لینا جائز قرار دینا، الہامی ٹیکسٹ پر سوال اٹھا دیتا ہے۔
حضرت نوح کی ایک بددعا کتاب پیدائش میں موجود ہے جس کے مطابق وہ حام کو کہتے ہیں کہ حام اپنے بھائی سام اور یافث کا غلام ہو، اس طریقے سے افریقیوں کی غلامی کا جواز مذہبی ٹیکسٹ سے نکل آتا ہے جبکہ صرف حام کی بدتمیزی کی سزا اس کی نسل کو دینا انصاف سے بعید نظر آتا ہے۔ اسرائیلیوں کو غلام نہ بنانا اور غیر اسرائیلیوں کو غلام بنا لینا، اگر خدائی کلام مان لیا جائے تو ان آیات کے درمیان مطابقت پیدا کرنا دور پار تاویل کے زریعے بھی ناممکن نظر آتا ہے۔
یہودی ان آیات پر عمل میں اتنے کٹر تھے کہ اگر کسی یہودی کو کوئی غیر قیدی بنا لیتا تھا تو یہ فدیہ دیکر اسے چھڑاتے تھے، اس بات کا ذکر قران کریم میں سورہ بقرہ آیت 85 میں موجود ہے۔
یہودیوں میں ایک فرقہ ایسینی گزرا ہے۔ یہ غلامی کو فطرت کے خلاف سمجھتے تھے۔ یہ فرقہ، 150 قبل مسیح سے پہلی صدی عیسوی تک فعال تھا۔ وہ یقین رکھتے تھے کہ تمام انسان برابر پیدا ہوئے ہیں اور غلامی کو نہ صرف ناانصافی بلکہ قدرتی قانون کے خلاف بھی سمجھتے تھے۔ یہ نظریہ انہیں قدیم دنیا کے دیگر گروہوں سے ممتاز کرتا تھا۔
(blog.oup.com)
ہیلی نسٹک یہودی فلسفی، فلو آف اسکندریہ، نے لکھا ہے کہ ایسینی غلام نہیں رکھتے تھے بلکہ ایک دوسرے کی خدمت کرتے تھے۔ وہ ان آقاؤں کو قدرتی قانون کی خلاف ورزی کرنے والا سمجھتے تھے کیونکہ فطرت نے تمام انسانوں کو بھائی بنایا ہے۔
(jewishencyclopedia.com)
ان کا اجتماعی طرزِ زندگی برابری اور باہمی خدمت پر مبنی تھا، اور وہ غلامی کے تصور کو مکمل طور پر مسترد کرتے تھے۔ یہ برابری کے اصولوں سے وابستگی ان کی جماعت کی ایک نمایاں خصوصیت تھی۔
(newadvent.org)
(جاری)
ابو جون رضا