غلامی، تاریخ، اعتراضات، ایک جائزہ (3)

قدیم ہندوستان میں بھی غلامی موجود رہی ہے۔ البتہ یہاں پر دنیا کے دوسرے خطوں کی نسبت غلاموں سے بہتر سلوک ہوتا رہا ہے۔ چندر گپت موریہ کے دور میں غلاموں سے متعلق قوانین بنائے گئے اس میں یہ شق شامل تھی کہ غلام کو اس کا مالک بغیر کسی معقول وجہ کے سزا نہیں دے سکتا۔ اشوکا نے غلاموں سے اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا تھا۔ ارتھ شاستر کے مطابق غلاموں کو حقوق دیے گئے ہیں یہاں تک کہ وہ جائیداد وغیرہ بھی رکھ سکتا ہے۔ جس پر اس کا ہی حق ہوگا۔

ہندوستان میں غلامی کی دوسری شکل رائج تھی۔ یہاں ذات پات کا نظام انسانوں کو جانوروں سے بدتر بنا دیتا تھا۔ انسان کا غلام ہونا، اس کے پچھلے جنم کے گناہوں کی وجہ سے مانا جاتا تھا۔

بھارت میں دلتوں کی آبادی 16 فیصد ہے۔ مؤرخین دلتوں کو بھارت کا اصل باشندہ قرار دیتے ہیں۔ تاریخی اور سماجی اعتبار سے وہ ہندو مذہب کا ہی حصہ ہیں لیکن ہندوؤں کے ذات پات کے نظام میں انھیں تمام ذاتوں سے نیچا قرار دیا گیا اور غلاظت اورگندگی کے سارے کام انھیں سونپ دیے گئے۔ انھیں اچھوت قرار دیا گیا۔

گذشتہ ڈھائی ہزار برس سے بھارت میں دلتوں کے خلاف پورے تسلسل کے ساتھ جس طرح کا غیر انسانی رویہ اختیار کیا گیا اور جس طرح کی تفریق برتی گئی اس کی شاید دنیا کی کسی تہذیب میں مثال نہیں ملتی۔ دلت دانشوروں کا کہنا ہے کہ ذات پات پرمبنی اس برہمنی نظام میں دلتوں کے خلاف تفریق، نفرت اور غیر انسانی برتاؤ کو مذہب کا تقدس حاصل تھا۔ لوگ مذہبی فریضہ سمجھ کر دلتوں کےساتھ تفریق برتتے رہے۔

سال 1950 میں آزاد بھارت کے آئین نے ملک میں ذاتوں پر مبنی امتیاز پر پابندی عائد کر دی تھی جب کہ اس کے بعد آنے والی حکومتوں نے نچلی ذاتوں کی ترقی کے لیے مختلف پالیسیوں کا اطلاق بھی کیا ہے۔ لیکن بھارت بھر میں خاص طور پر بڑے شہروں کے باہر یہ نظام مختلف سطحوں پر آج بھی رائج ہے۔

(جاری)

ابو جون رضا

1

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *