
عیسائیت سے پہلے قدیم روم میں غلاموں کی حیثیت ایک جانور سے زیادہ نہیں تھی۔ ان کا جنسی استحصال اور ان کو جسمانی سزائیں دینا عام تھا۔ نیٹ فلیکس کی سیریز “اسپارکٹس” غلاموں کی زندگی کا بہترین نقشہ کھینچتی ہے۔ اس زمانے میں غلام رکھنا اسٹیٹس سمبل تھا۔ ان کو امیر لوگ گھر پر کسی جنگجو کی نگرانی میں ٹریننگ بھی کرواتے تھے اور پھر ارینا میں لڑواتے تھے۔ ان کو گلیڈی ایٹر کہا جاتا تھا۔ جس امیر شخص کا غلام جیتتا تھا، اس کو انعام میں اچھا کھانا اور بعض اوقات کسی لونڈی سے مستفید ہونے کا موقع بھی دیا جاتا تھا۔
تہواروں یا خوشی کے مواقع پر کلوزیم میں لوگ جمع ہوتے تھے ۔ جب غلام آپس میں لڑتے تھے اور ان کے سینوں سے خون کے فوارے نکلتے تھے تو یہ داد و تحسین کی صدائیں بلند کرتے تھے۔ یہی نہیں بلکہ ان غلاموں کو جنگلی جانوروں سے بھی لڑایا جاتا تھا۔

ان غلاموں کی زندگی اس قدر مشکل ہوتی تھی کہ بعض اوقات تنگ آکر یہ اپنے مالکوں کو قتل کردیتے تھے، اس وجہ سے قدیم روم میں بغاوتیں بھی ہوئیں۔ سب سے مشہور بغاوت “اسپارکٹس” کی تھی جس کی وجہ سے روم کی سلطنت ختم ہوتے ہوتے بچی تھی۔
حضرت عیسی علیہ السلام کی بعثت کے وقت اسرائیلی رومیوں کے غلام بن چکے تھے۔
آپ نے ان سے کہا
“خداوند کا روح مجھ پر ہے۔ اس نے مجھے مسح کیا ہے تاکہ میں غریبوں کو خوشخبری سناؤں۔ اس نے مجھے بھیجا ہے تاکہ میں قیدیوں کو رہائی اور اندھوں کو بینائی کی خبر دوں، کچلے ہوؤں کو آزادی بخشوں اور خداوند کے سال مقبول کا اعلان کروں”
(لوقا باب 4)
آپ نے یہودی علماء کے کرداروں کو آشکار کرتے ہوئے کہا
“شریعت کے عالم اور فریسی موسی کی کرسی پر بیٹھے ہیں۔ لہذا جو کچھ یہ تمہیں سکھائیں اسے مانو اور اس پر عمل کرو لیکن ان کے نمونے پر مت چلو کیونکہ وہ کہتے تو ہیں مگر کرتے نہیں ہیں۔ وہ ایسے بھاری بوجھ، جنہیں اٹھانا مشکل ہے، باندھ کر لوگوں کے کندھوں پر رکھتے ہیں اور خود انہیں انگلی بھی نہیں لگاتے۔ وہ ضیافتوں میں صدر نشینی چاہتے ہیں اور عبادت خانوں میں اعلی درجے کی کرسیاں اور چاہتے ہیں کہ بازاروں میں لوگ انہیں جھک جھک کر سلام کریں اور “ربی” کہہ کر پکاریں، لیکن تم ربی نہ کہلاؤ کیونکہ تمہارا رب ایک ہے اور تم سب ” بھائی” ہو”
(متی باب 25)
بعد کے ادوار میں بعض علماء جیسے سینٹ گریگوری نے غلامی کو فطرت اور انسانیت کے خلاف قرار دیا تھا۔
سینٹ گریگوری آف نیسا، چوتھی صدی کے ایک بشپ تھے، وہ غلامی کی سخت مذمت کرنے کے لیے مشہور ہوئے تھے۔ اپنی چوتھی ہوملی (وعظ) پر کتاب “ایکلسیاسٹس” میں انہوں نے غلامی کے خلاف سخت موقف اختیار کرتے ہوئے کہا:
“تم ایک انسان کو غلام بناتے ہو، جبکہ اس کی فطرت آزاد ہے اور اسے آزاد مرضی عطا کی گئی ہے۔ جسے خالق نے زمین کا مالک بنایا اور حکمرانی کے لیے مقرر کیا، اسے تم غلامی کے طوق میں جکڑ دیتے ہو، تم خدائی فرمان کی خلاف ورزی اور اس کے خلاف جنگ کر رہے ہو”
یہ نقطہ نظر اس وقت کے عمومی رویے کے خلاف تھا، کیونکہ قدیم دنیا میں غلامی ایک عام رواج تھا۔ سینٹ گریگوری کی غلامی کے خلاف مذمت ابتدائی عیسائی مفکرین میں منفرد تھی، کیونکہ وہ صرف غلامی کے مظالم کی مذمت نہیں کرتے بلکہ خود غلامی کے ادارے کو غیر اخلاقی قرار دیتے تھے۔
(placefortruth.org)
مگر اس کے برخلاف سینٹ آگسٹائن کے نظریات زیادہ مقبول ہوئے جس نے غلامی کو گناہ گار کے لیے خدا کی طرف سے سزا قرار دیا تھا۔
(جاری)
ابو جون رضا