ایام فاطمیہ ایران میں کچھ عرصے پہلے مرزا جواد تبریزی اور ان کے کچھ ہمنواء ملاؤں نے ایران میں منانا شروع کیے تھے۔ ہم نے اپنے بچپن میں کبھی ان کا نام نہیں سنا تھا۔
لبنان کے جلیل القدر عالم دین آیت اللہ محمد حسین فضل اللہ صاحب نے احراق در فاطمہ سلام اللہ علیہاء کا انکار کیا تھا۔ اسی طرح وہ زیارت عاشورہ کے لعنت والے حصے پر اشکال وارد کرتے تھے۔ (یاد رہے کہ یہ وہی آیت اللہ ہیں جہنوں نے حزب اللہ بنائی اور اس کی شان میں ہمارے ایران پرست لوگ قصیدے پڑھتے نہیں تھکتے)
اس کے رد عمل میں جواد تبریزی جیسے ملاؤں نے ان کے ضال و مضل ہونے کا فتوی دیا اور ایسے شخص کے پیچھے نماز جماعت منعقد نہ ہونے کا حکم لگایا جو زیارت عاشورہ اور احراق در فاطمہ کا منکر ہو۔ باقی کام ٹٹ پونجیے زاکروں نے کر ڈالا۔ ان کے نزدیک ایسا شخص جس کے پیچھے دوسروں کی نماز صحیح نہ ہو تو خود اس کی اپنی نماز کس درجہ پر ہوگی ، اس کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
ہمارے ایک قریبی دوست بتاتے ہیں کہ دو اشخاص کی کردار کشی پر بہت پیسہ خرچ کیا گیا تھا ۔ ایک آیت اللہ فضل اللہ تھے اور ایک پاکستانی عالم دین ہیں جنہوں نے اتحاد بین المسلمین کے لیے بہت کام کیے اور کسی ملک کی ڈکٹیشن پر نہیں چلے۔
یہ نام نہاد زاکر اور ملا جو ایام فاطمیہ کے نام پر پیسہ کماتے اور عوام کو جھوٹی کہانیاں سناتے ہیں ، ان کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ بعد از رسول اکرم اہلبیت کی ایسی مظلومیت بتا کر وہ اسلام کی کونسی خدمت انجام دے رہے ہیں؟
یہ حضرت علی کو مظلوم بتاتے ہیں کہ وہ چپ چاپ تماشہ دیکھتے رہے ، ان کی بیوی کو تازیانے مارے گئے ، ان کے گھر کا دروازہ جلایا گیا مگر وہ خاموش رہے۔ پھر یہی ملا اور زاکر مولا علی کو مشکل کشاء اور مولائے کائنات بتاتے ہیں اور ان کی قبر سے توسل کرکے حاجات طلب کرنے لگتے ہیں۔
کمال تعجب ہے کہ جو شخص (معاذاللہ) زندگی میں اپنے خانوادے کی مدد نہیں کرسکا وہ دنیا سے چلے جانے کے بعد عورتوں بچوں اور کمزور انسانوں کی کیسے مدد کرے گا ؟
صاف پتا چلتا ہے کہ یہ تمام من گھڑت واقعات ہیں جن کا مقصد صرف پیسہ کمانا، اور عوام کے دلوں میں نفرت کے سمندر کو موجزن رکھنا ہے۔
جب تک اپنے جیسے انسانوں سے دلوں میں نفرت پنپتی رہے گی، ملاؤں اور نوحہ خوانوں کی عیاشیاں جاری رہیں گی
یہ ایک نفرت کی بہتی گنگا ہے جس میں ملا ، زاکر اور نوحہ خواں سب ہاتھ دھوتے ہیں۔ پھر سوشل میڈیا پر اپنی تصویریں اپ لوڈ کرتے ہیں جن میں وہ امریکا جانے کے لیے ایمرٹس کے لاؤنج میں بیٹھے ہیں اور مہنگی ترین فلائٹ میں آرام دہ بستر پر ہوا میں اڑتے ہوئے سفر کر رہے ہیں۔
لوگ ان ملاؤں کی کروڑں روپے کی گاڑیوں اور نوحہ خوانوں کے ٹھاٹ باٹ دیکھ کر منہ میں انگلیاں داب لیتے ہیں جبکہ ان معصوم لوگوں کو یہ نہیں پتا ہوتا کہ مذہب کے نام پر کیسی نفرت ان کے سینوں میں انڈیلی گئی ہے۔ یہ سب عوام کا ہی پیسہ ہے جس سے بمشکل میڑک، انٹر پاس نوحہ خواں یا مدرسہ میں تین سے چار سال لگا کر عمامہ پوش لوگ ٹھاٹ کی زندگی گزارتے ہیں۔
نفرت چاہے سفید کپڑوں میں لپٹی ہو یا کسی صحیفہ میں درج ہو ، بہرحال انسان اور اس کے تمام کاموں کی نفی ہے۔
اللہ لوگوں کو عقل و شعور دے یہ کہاں بھٹکے پھرتے ہیں
ابو جون رضا