میں پہلے بھی اس موضوع پر کئی دفعہ لکھ چکا ہوں ۔ “ایام فاطمیہ” کے نام سے یہ نئی بدعت ہے جو شیعوں میں رواج پکڑ گئی ہے۔
غور کیجئے،
جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کی اسلام کے لیے خدمات سے زیادہ ان کی وفات میں زاکرین کے لیے زیادہ کشش ہے۔ اگر صرف ان کی زندگی اور تقوی کو بیان کیا جائے گا تو لوگ شاید اتنا متاثر نہ ہوں ، مگر ان کی شہادت کے جھوٹے بیان ، کیل کا پہلو میں گھس جانا، ان کی کمر مبارک پر کسی کا ہنڑ مارنا، ان کے گھر کا دروازہ جلانا، معظمہ کا زمین پر گر جانا، ان کا حمل ضائع ہوجانا وغیرہ وہ باتیں ہیں جو لوگوں کے دلوں کو گرما دیتی ہیں۔ وہ غم میں ڈوب جاتے ہیں۔ حسرت و یاس سے لوگوں کا دل چاہتا ہے کہ خود کو مار لیں۔ (جبکہ ان میں سے صرف دروازہ پر آگ لگا دینے کی دھمکی سے زیادہ کچھ بھی ثابت نہیں ہے)
زاکر صرف اسی پر بس نہیں کرتا ، وہ واقعہ کو نیا رخ دیتے ہوئے لوگوں کو بتاتا ہے کہ سیدہ کے انتقال کے بعد ان کے بچوں میں سے جب امام حسین نے ان کو آواز دی اور کوئی جواب نہ ملا تو امام حسین نے روتے ہوئے کہا کہ اماں ! پہلے تو ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میں نے آواز دی ہو اور آپ نے جواب نہ دیا ہو، اگر اب جواب نہ دیا تو میں سمجھوں گا کہ آپ مجھ سے پیار نہیں کرتیں۔ بس اتنا کہنا تھا کہ کفن میں سے جناب سیدہ کے دونوں ہاتھ باہر نکلے اور انہوں نے امام حسین کو گلے سے لگا لیا۔
مجمع میں پٹس پڑ جاتی ہے۔ لیکن زاکر کے دل کو سکون نہیں ملتا، وہ اس موڑ سے سیدھا کربلا پہنچ جاتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ جب امام حسین گھوڑے سے گرے تو ان کو لگا کہ وہ اپنی والدہ کی آغوش میں گرے ہیں۔ جب شمر ان کی گردن پر خنجر چلا رہا تھا تو کسی معظمہ کے دو ہاتھ بار بار خنجر اور گردن کے بیچ میں آجاتے تھے اور ایک دکھیاری ماں کی صدا آتی تھی کہ میرے بچے کو بخش دے، اس کو نہ مار ، اس کو میں نے چکیاں پیس کر پالا ہے۔
یہاں لوگوں کا ضبط جواب دے جاتا ہے۔
میں خود اس طرح کے مصائب سن کر کئی دفعہ نیم بیہوشی کے عالم میں چلا گیا۔ میں نے منہ پر طمانچے مارے، سر کے بال نوچے ، اور باآواز بلند گریہ و زاری کی۔
ذاکر کا مقصد پورا ہوگیا، اس کی کمائی حلال ہوگئی، شہنشاہ مصائب کا خطاب اس کو مل گیا، اگلے سال کا عشرہ بھی بک ہوگیا۔
جناب سیدہ بہت کم عمری میں انتقال کرگئیں تھیں۔
زمانے دراز بعد ان سے مافوق الفطرت باتیں منسوب کی گئیں اور معجزات بیان کیے گئے۔ یہاں تک کہ ان کی گھر کی خادمہ بھی معجزے دکھاتی تھیں۔
لیکن کمال یہ ہے کہ رسول اکرم کی دوسری ازواج جو حضرت علی کے مدمقابل نہیں آئیں، ان سے کوئی معجزہ صادر نہیں ہوا، نہ ہی رسول اکرم کے گھر کی خواتین کی خادمائیں کوئی معجزہ دکھاتی نظر آئیں۔
غلو نے جناب سیدہ کو جناب مریم اور جناب ہاجرہ جیسی خواتین سے بڑھا دیا۔ کچھ لوگ نے یہاں تک روایات گھڑیں کہ اللہ نے نبی کریم سے کہا کہ میں نے سب کچھ آپ کی محبت میں پیدا کیا، میں کچھ نہ خلق کرتا اگر آپ کو خلق نہ کرتا، اور آپ کو بھی خلق نہ کرتا اگر علی کو خلق نہ کرتا اور آپ دونوں کو خلق نہ کرتا اگر فاطمہ کو خلق نہ کرتا۔
ایک مولانا فرماتے تھے کہ نماز میں خضوع و خشوع کے لیے جناب سیدہ کی عظمت کا تصور کرو۔
جناب سیدہ کو فدک کے معاملے میں خلیفہ اول سے اختلاف ہوا۔ یہ تاریخی طور پر اتنا مشکل معاملہ ہے کہ آیت اللہ شہید باقر الصدر جیسی شخصیت نے فدک نامی کتاب میں لکھا کہ “فدک مشکل ترین قضیہ ہے”. انہوں نے اپنی اس کتاب کے دوسرے ایڈیشن کے چھاپنے کی اجازت بھی نہیں دی تھی۔
اس کی دو وجوہات نظر آتی ہیں۔ ایک یہ کہ برادران اہلسنت اس معاملے میں حضرت ابو بکر کو حق بجانب سمجھتے ہیں یا ان کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ قران کریم کی جس آیت سے نبی کریم کی وراثت پر استدلال پیش کیا جاتا ہے وہ خود بہت کمزور ہے اور بعید ہے کہ جناب سیدہ نے اس طرح کا کوئی استدلال مسجد میں پیش کیا ہوگا۔
بعد میں راویوں نے جناب سیدہ کا ایک طویل خطاب بھی گھڑ لیا جس کو خطبہ فدک کہا جاتا ہے جس کی سند پر بھی اشکال ہیں اور تعجب ہے کہ اس قدر طویل خطبہ مسجد میں بیٹھا کون شخص لفظ بہ لفظ لکھ رہا تھا؟
اہل علم جانتے ہیں کہ کسی پراپرٹی کی ملکیت کا اختلاف جب سے انسان اس زمین پر موجود ہیں، تب سے لوگوں کے درمیان چلا آرہا ہے، اور شاید قیامت تک خاندانوں میں اس قسم کے تنازعات کی باز گشت سننے کو ملتی رہے گی۔ پراپرٹی کسی مقدس شخصیت کی ہو یا کسی عام انسان کی، اس کو غضب کرنے کی سزا شریعت میں ایک ہوگی۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ماضی کی کسی مقدس شخصیت کی پراپرٹی غضب کی گئی تو غاضب کے جہنم میں تکے بنائے جائیں گے اور ایک عام شیعہ اپنی بہن کی پراپرٹی غضب کرلیتا ہے تو اس کو دو چار لپڑ مار کر جنت میں بھیج دیا جائے گا۔
شیعہ علماء اس کمزوری کو بھانپ گئے تھے، اسی لیے انہوں نے کہا کہ جناب سیدہ تو اصل میں ولایت کا دفاع کرنے حاکم وقت کے سامنے گئی تھیں۔ جبکہ یہ ان کے منہ مبارک میں اپنے الفاظ ٹھونسنے کے مترادف ہے۔ بی بی نے مسجد میں جاتے ہی یہ نہیں کہا کہ تم غلط طریقے سے حاکم بنے ہو اور میرے والد علی کو حاکم بنا کر گئے تھے۔
وقت گزرنے کے ساتھ وہ مسجد جس میں ابتدائی چاروں خلفاء کی بیعت کی گئی، اس کو دربار کا نام دیا گیا۔
جناب سیدہ مسجد گئی تھیں اور مسجد کے لفظ سے دلوں میں نفرت پیدا نہیں ہوتی ، جبکہ دربار کے لفظ سے ایسا لگتا ہے کہ شاہانہ مغلیہ سلطنت ہے، تخت بچھا ہوا ہے، ایک بادشاہ تاج پہنے کروفر سے جلوہ افروز ہے اور ایک دکھیاری پردہ نشین عورت اپنی پراپرٹی پر قبضہ کی دہائی لیکر اس کے سامنے گھنٹوں سے کھڑی ہے۔ مسجد کو دربار کا نام دینے والے بھول جاتے ہیں کہ تین خلفاء کے بعد حضرت علی بھی اسی تخت پر بیٹھے ہونگے جس پر روایوں نے پہلے خلیفہ کو بٹھایا تھا۔
مان لیتے ہیں کہ جناب سیدہ اس قضیے میں حق بجانب تھیں، اب اگر شرعی سزا کا اطلاق کریں گے تو اسلام کی نظر میں کسی کی پراپرٹی غضب کرنے کی کیا سزا ہے؟ وہ بیان کیجیے ۔
منبر سے یہ بھی بیان کیجئے کہ جس جس نے اپنی بہنوں ، بیٹیوں ، بھائیوں یا کسی بھی انسان کی زمین دھوکے سے ہڑپ لی، وہ انسان جناب سیدہ کی پراپرٹی غضب کرنے والوں کے ساتھ محشور ہوگا، چاہے وہ ہر سال ایام فاطمیہ پر کتنا ہی رویا پیٹا کیوں نہ ہو۔ (ایسا کبھی منبر سے نشر نہیں کیا جائے گا , کیونکہ مجمع رونا پیٹنا بھول کر زمین پر اپنے خاندانی تنازعات کے بارے میں سوچنے لگے گا)
جناب سیدہ کا اختلاف خلیفہ اول سے رہا تھا ۔ خلیفہ اول کو جہنمی قرار دینے کے لیے جنت میں داخلہ جناب سیدہ کی رضا مندی سے مشروط کیا گیا۔ جبکہ اسلام نے کسی بھی شخصیت کی رضا مندی کو جنت میں داخلے کی شرط قرار نہیں دیا ہے۔ انسان قران و سنت پر عمل پیرا ہے اور اللہ کی رضا مندی کو مدنظر رکھتا ہے، یہی اس کے لیے کافی ہے۔
ان جعلی روایات کی وجہ سے خود بی بی کی والدہ جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا کی اسلام کے لیے خدمات گہنا گئیں جن کے لیے بجا طور پر محسن اسلام کا لقب استعمال کیا جاسکتا ہے۔
جعلی معجزے، کہانیاں، نذر نیاز سب جناب سیدہ کے نام سے ہونے لگا۔ ان کے مختلف نام رکھے گئے اور کسی بھی کام کو جلد انجام دلوانے کے لیے برصغیر میں ان کے معجزات کو کہانیاں بنا کر سنا جانے لگا ، جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
پچیس سال پہلے آیت اللہ جواد تبریزی نے ایران میں ایام فاطمیہ کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ اس کا مقصد جناب سیدہ کی سیرت کے بیان سے زیادہ فدک ، دروازے گرانے اور بچہ سقط ہوجانے والے مصائب کا بیان تھا۔
یہ رسم اب پاکستان میں سال میں دو دفعہ منائی جانے لگی ہے جن کا اصل مدعا رونا پیٹنا، ضعیف اور مرسل روایات کا بیان ہوتا ہے۔ ان مجالس میں خلیفہ اول اور دوئم پر کھلے اور ڈھکے چھپے ہر انداز میں تبراء ہوتا ہے اور رونے پیٹنے کے بعد اس مجلس کے ثواب کو آخرت میں بی بی کی شفاعت کا زریعہ سمجھ لیا جاتا ہے۔
اسی وجہ سے آج ایک شیعہ نبی کریم کی جناب سیدہ کی شان میں بیان کی گئی دو چار روایات سنا سکتا ہے یا ان کے مصائب بیان کر سکتا ہے مگر ان کی اسلام کے لیے خدمات بیان کرنے سے قاصر نظر آتا ہے۔
ایام فاطمیہ کبھی حضرت علی اور ان کی اولاد نے نہیں منائے جو آج ایک تبرائی محفل کے انداز میں شیعوں میں رائج ہوگئے ہیں اور ان سے مولانا اور زاکرین حضرات کا پیٹ وابستہ ہوگیا ہے۔
اس طرح کے ایام جتنے زیادہ سال میں منائے جائیں گے ان کی زاکرین اور ملاوں کی طرف سے اتنی ہی حوصلہ افزائی کی جائے گی ۔ لوگوں کی حلال کمائی کتنے پیار سے ملاؤں کی جیبوں میں منتقل ہوتی ہے ، اس کے لیے ان ایام میں ملاؤں کا مجالس پڑھنے کے لیے آتے وقت گاڑیوں کا کانوائے ہی دیکھ لیا جائے تو شاید کچھ بات سمجھ میں آئے۔
میری تو ہمیشہ سے یہ استدعا ہے کہ لوگ قران کے اس فرمان کو یاد کریں
تِلۡکَ اُمَّۃٌ قَدۡ خَلَتۡ ۚ لَہَا مَا کَسَبَتۡ وَ لَکُمۡ مَّا کَسَبۡتُمۡ ۚ وَ لَا تُسۡئَلُوۡنَ عَمَّا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ
(سورہ بقرہ آیت 141)
“وہ ایک امّت تھی جو گزر چکی ، جو انہوں نے کیا ان کے لئے ہے اور جو تم نے کیا وہ تمہارے لئے ، تم سے ان کے اعمال کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا”
دعا ہے کہ پروردگار ہمیں سیرت نبی کریم اور ائمہ اہلبیت کو صحیح معنوں میں سمجھنے کی توفیق عنایت فرمائے۔
ابو جون رضا