اذمنہ مظلمہ اور شیعت ۔ ایک تقابلی جائزہ

ڈارک ایجز یورپ کے اس دور کو کہا جاتا ہے جب پانچویں اور چھٹی صدی میں مختلف اقوام کے حملوں نے یورپ میں آرتھو ڈوکس مسیحت کو برباد کردیا تھا۔ اس زمانے میں لوگوں کو ایسا لگتا تھا کہ سچا مذہب اب دنیا میں کہیں موجود نہیں ہے۔ تاہم یورپ کے مشرقی حصہ میں عیسائیت زندہ تھی جس کا دارلحکومت کاسٹینٹیوپل تھا جسے یورپ والے بازنطین کہا کرتے تھے۔ یہ دنیا کا واحد ایسا مقام تھا جہاں عیسائیت زندہ تھی۔

اسلام اور مغربی وحشیوں کے دہرے خطرے کے مقابل یہ الہیاتی خالصیت کا سرپرست تھا۔

بازنطینی یسوع کو کائنات کا شہنشاہ کہلانا پسند کرتے تھے۔ یسوع کا یہ فاتحانہ تصور گہری روحانیت اور چرچ کے اعتماد کو منعکس کرتا تھا۔

جبکہ مصیبتوں کے مارے مغرب میں اذیتوں کے شکار یسوع کا تصور مقبول ہوگیا۔ یہ ایک نفسیاتی مسئلہ تھا۔ ایک طرف یسوع کو پوری دنیا کی شہنشایت اور “مالک یوم الدین” قرار دیکر عیسائی اپنی عاقبت بخیر ہونے کی خود کو تسلی دیتے تھے اور دوسری طرف یسوع کو پہنچنے والی اذیتوں کو یاد کر کے دنیا میں ناکامی اور پہنچنے والی تکلیفوں کے احساس کو کم کیا جاتا تھا۔

یہی طریقہ کار شیعت نے امام حسین کی شخصیت کے ساتھ اختیار کیا۔ انہوں نے کربلا کو ہمیشہ ظالم کے رخ سے دیکھا۔ جتنا زیادہ مصائب اور اذیتیں بیان کی جائیں گی، اتنا زیادہ یہ واقعہ دلوں پر اثر کرے گا۔ تاریخ میں ایک مظلوم شخصیت اپنے پورے گھرانے کو مٹا کر اسلام اور اپنے نانا رسول اکرم پر احسان کرگئی۔ بدلے میں ایک قوم پیدا کی گئی جس کا کام سارا سال رونا پیٹنا تھا۔ لوگوں کے ذہنوں کو اس طرح سے واش کیا گیا کہ ان کو لگا کہ جتنا روئیں پیٹیں گے اور دنیا کے سامنے اہلبیت کو مظلوم ثابت کریں گے ، اتنا ہی آخرت میں بلند مقام حاصل کریں گے

گیارہویں صدی میں چرچ نے یورپ کی اصلاح کا آغاز کیا۔ راہب یورپ کے لوگوں کو عیسائی بنانا اور انہیں سچی عیسائیت کے طریقوں سے آشناء کرنا چاہتے تھے۔ یہ اصلاحی تحریک کافی کامیاب رہی۔ انہوں نے پوری عیسائی دنیا میں چرچ تعمیر کروائے اور خداوند کے سپاہیوں اور شیطانوں کے مجسمے بنوا کر ان کے زریعے لوگوں کو خیر و شر کی تعلیم دی۔ خانقائیں بنوائیں جن کے منتظمین بہت عیش و آرام کی زندگی بسر کیا کرتے تھے ۔ راہب باہر کی دنیا کے برعکس جب لوگ فاقوں سے مر رہے ہوتے تھے اور ان کی کمیونٹی سیلاب اور دوسری ارضی حوادث کی زد میں تھی، اپنے قلعوں میں بند تحفظ و استحکام کے مزے لوٹتے تھے۔

یہ راہب خود عزت اور عیش کی زندگی بسر کرتے تھے لیکن لوگوں کو باکردار اور تجرد والی زندگی گزارنے کی نصیحتیں کرتے تھے ۔ مثال کے طور پر مختلف ایام میں مجامعت ممنوع تھی ۔ حیض کے ایام، حمل ، بیوی کے بچے کو دودھ پلانے عرصے میں، مقدس ایام میں ، پیر کے دن، بدھ کے دن، جمعے اور اتوار کے دن بھی مجامعت منع تھی۔

راہبانہ کردار کو بڑھاوا دینے کا دوسرا طریقہ ” زیارت” تھی۔ جو گیارھویں صدی میں عیسائی زندگی کا ایک اہم حصہ تھی۔ جس میں مقدس مقام کی زیارت کے ساتھ ساتھ باطنی طور پر ایک نئی عیسائی ذات کی طرف سفر شامل ہوتا تھا۔

جس زمانے میں عیسائیت ریاستی مذہب بن گئی تھی اس زمانے میں شہیدوں کی لاشوں پر مقبرے تعمیر کیے گئے تھے۔ لوگ دور دور سے ان کی زیارت کو آتے تھے ۔ ان کو بتایا جاتا تھا کہ یہ خدا کے مقرب بندے ہیں اور ان کی قبر کی زیارت سے آپ بھی خدا کے مقربین میں شامل ہوجائیں گے۔ ان شہیدوں کی زندگی اور موت کی کہانیاں لوگوں کو ان مقبروں میں سنائی جاتیں جن کو سن کر وہ بہت متاثر ہوتے۔ بیمار اور معذور لوگ اپنے تجربات بیان کرتے کہ جب وہ شہید کی زندگی کا واقعہ سن کر رو رہے تھے تو ان کو لگا کہ مقبرے میں ایک خوشبو سی پھیل گئی ہے اور ان کو تازگی اور روحانیت کا احساس ہوا۔

اہل تشیع بھی سارا سال زیارت کی کھوج میں لگے رہتے ہیں۔ قبروں کی زیارت ان کو ایک ایسی طاقت کے سامنے لے جاکر کھڑا کرتی ہے جو خدا اور لوگوں کے درمیان واسطے کا کام انجام دیتا ہے۔ جس کے سامنے کھڑے ہوکر یہ بیماریاں دور ہونے کی دعائیں کرتے ہیں، بے اولاد بچے مانگتے ہیں اور مالی مشکلات کے دور ہونے کی استدعا کی جاتی ہے ۔ اس سفر میں لوگوں کو معجزات کی جھوٹی سچی کہانیاں سنائی جاتی ہیں اور ان کو بتایا جاتا ہے کہ جب وہ اپنے گھر کی طرف واپس پلٹیں گے تو خدا کا فرشتہ ان کے ماتھے پر لکھ دے گا کہ یہ جہنم سے آزاد کردہ انسان ہے۔

ماضی سے لیکر آج تک زیارت ایک ایسا زریعہ رہا ہے جس کے ذریعے لوگوں کی مشکلات دور ہوں نہ ہوں لیکن ٹریول ایجنٹس کی مالیات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

ابو جون رضا

1

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *