غلامی، تاریخ ، اعتراضات، ایک جائزہ (1)

انسانوں نے اپنے جیسے انسانوں پر جتنے ظلم کیے ہیں ان میں غلامی جیسے ظلم سے بڑا ظلم تاریخ انسانیت میں نہیں ملتا۔

غلامی کے آغاز کے حوالے سے کوئی حتمی بات کہنا ممکن نہیں ہے مگر تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ دور قدیم سے ہی دنیا میں انسان اپنے جیسے دوسرے انسانوں کو غلام بنایا کرتے تھے۔ حمورابی کے قدیم قانون کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ معاشرے میں عام لوگوں کے علاوہ اولاد کو بھی ماں باپ کا غلام سمجھا جاتا تھا اور ان کی خرید و فروخت ایک عام بات تھی۔ عام لوگ بھی بادشاہ کے غلام سمجھے جاتے تھے۔

غربت غلامی کی اصل وجہ رہی ہے۔ امیر لوگ سود پر لوگوں کو پیسے دیا کرتے تھے ، عدم ادائیگی پر پورا گھر غلام بن جاتا تھا۔

ہمارے استاذ بتاتے ہیں کہ انہوں نے بھٹے پر کام کرنے والی پندرہ سولہ سال کی ایک بچی گھر پر ملازمہ کے طور پر رکھی۔ کچھ دن بعد کچھ ہٹے کٹے لوگ اس کو ڈھونڈتے ہوئے آئے اور بچی کو زبردستی اپنے ساتھ لے گئے۔ وجہ یہ تھی کہ لڑکی کے باپ نے قرضہ لیا تھا ، جس کی ادائیگی اس کا خاندان کام کرکے چکا رہا تھا۔ ابھی قرضہ باقی تھا، اس وجہ سے اس بچی کو وہ اپنے ساتھ لے گئے۔

دور جدید میں بھی غلامی کی کئی شکلیں رائج ہیں۔ جن میں نوکری بھی ایک طرح کی غلامی ہے۔ اس میں اور عہد قدیم کی غلامی میں فرق یہ ہے کہ انسان گھر چلا جاتا ہے۔ اس کو پیمنٹ ملتی ہے۔ لیکن صبح سے لیکر شام تک آفس میں باس کے تلوے چاٹتا ہے، بونس کی آس میں مذہبی کلینڈر کو روز دیکھتا ہے، باس کی ہنسی پر ہنستا ہے اور اس کے غصے سے کانپ جاتا ہے۔

تین چار سالوں میں پاکستان میں اس طرح کے کیسز تواتر سے سامنے آئے ہیں کہ کسی جج صاحب کے گھر میں کام کرنے والی ماسی کا مالکن نے ڈنڈے مار کر ہاتھ توڑ دیا، کسی بچی کا گھر میں ریپ ہورہا تھا۔ کسی کو ہاتھ پیر باندھ کر ڈالا ہوا تھا۔ ایک معروف قوال کی وڈیو وائرل ہوئی تھی جو “بوتل” نہ ملنے پر ملازم کو گدھوں کی طرح پیٹ رہا تھا۔

https://urdu.geo.tv/latest/335320-

یہ سب مسلمان لوگ ہیں جو ظلم کرتے رہے۔ سوشل میڈیا کی برکت سے کوئی کیس وائرل ہوگیا تو لوگوں نے شور مچایا، اگر نہ ہو تو یہ معاملات چلتے رہتے ہیں۔

جاری

ابو جون رضا

1

1 thought on “غلامی، تاریخ ، اعتراضات، ایک جائزہ (1)”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *