حالیہ جنگی تنازعہ ایک بے لاگ تجزیہ

ایران پر اسرائیل کے حملے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بحث چھڑی ہوئی ہے کہ یہ صرف پٹاخہ بازی ہے یا واقعی میں کوئی حملہ کیا گیا ہے۔

عوام ہمیشہ کی طرح مختلف بیانیوں کے درمیان جھولتی رہتی ہے۔ ایک طرف اہل تشیع کا ماضی ہے جو خلفاء ثلاثہ اور ام المومنین کی ہجو گوئی کی وجہ سے داغدار ہے دوسری طرف وہابیت کی شدت پسندی اور بعد میں تبلیغی جماعت کو لات مار کر مقدس ملک سے نکالنے سے لیکر شاہ رخ اور سلمان خان کے ہاتھوں کے نشانات کو محفوظ کرنے تک کا یوٹرن ہے۔

شاہ فیصل کے قتل کے بعد سے عرب حکمران ہمیشہ پاکستانی افواج کی سیکیورٹی کے محتاج رہے ہیں۔ خاص طور پر موجودہ حکمران کے سیاسی داؤ پیچ کی وجہ سے ان کی سیکیورٹی ہمیشہ اسٹیک پر رہتی ہے۔

بڑی مشکل سے پاکستان کے موجودہ حکمران سات ارب ڈالر کی انوسیٹمنٹ پر سعودی حکومت کو راضی کر پائے ہیں۔ جو آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ ٹوئٹر ، فیس بک، ٹیسلا وغیرہ جیسے سانڈ اداروں کو “آرام کو” نے پرافٹ میں پچھلے سال پیچھے چھوڑ دیا تھا۔

اس لحاظ سے مالی لحاظ سے اس قدر طاقتور ملک جو جی سیون میں شامل ہے، اس کی اسرائیل کے ہاتھوں غزہ میں رلتے ہوئے لوگ اور روزانہ مرتے ہوئے معصوم بچوں کی زبانی مذمت بھی نہ کرنا یہ بتاتا ہے کہ عرب کا موجودہ حاکم اور اس کے آگے پیچھے گھومتے حواری صرف اپنے ملکی مفادات کو دیکھتے ہیں ۔ عرب حکومت کی خاموشی اتنی دردناک ہے کہ مفتی تقی عثمانی جیسا شخص بھی ان کی مذمت میں چیخ پڑا۔

غزہ میں جاری فوجی جارحیت پر ساوتھ افریقہ جیسے ملک نے عالمی عدالت میں مقدمہ لڑا اور جیت گیا۔ یہ اور بات ہے کہ اس کا کوئی اثر اسرائیل پر نہیں ہوا مگر یہ بتاتا ہے کہ اس عدالت میں ایران اور پاکستان جیسے اسلام کے نام لیواء ممالک اسرائیل کے خلاف مقدمے لڑنے کے قابل نہیں تھے بلکہ شاید ان کی پٹیشن دیکھ کر عالمی عدالت کے ججز ہنسنے لگتے اور کہتے کہ پہلے اپنے ہاتھ تو صاف کرکے آؤ جو تمہارے ملک کے شہریوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔

اس میں شاید ہی کوئی دو رائے ہوں کہ پاکستان میں شیعہ افراد کی اکثریت اپنا پہلا گھر ایران کو ہی مانتی ہے۔ وہ ایران کے ہر اقدام کی حمایت اور پاکستان کے ہر حاکم کو برا بھلا کہتی ہے۔

مہسا امینی کے قتل اور اس کے احتجاج کو پاکستانی شیعہ آٹھ دس لوگوں کی کمپین سے زیادہ کی اہمیت نہیں دیتے۔ ایران کے میزائل سے مسافر طیارے کا گرنا اور معصوم لوگوں کی موت یہ کہہ کر جسٹفائی کی جاتی ہے کہ ایسی غلطیاں دنیا میں ہوتی رہتی ہیں، ان پر واویلا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

ادھر اوریا مقبول جان جیسوں کا طبقہ ہے جو ایران کے ہر عمل کو امریکا کا اشارہ بتاتا ہے۔ یہ خود افغانستان کے ملا کو امیر المومنین کہتا ہے مگر ایران کے ملاؤں کو برا بھلا کہتا ہے۔

ان کا بس نہیں چلتا کہ کس طرح سے امریکا کا حملہ ایران پر کروا کر اس کو نیست و نابود کروادیں ۔ ان کو یہ بات بھی ہضم نہیں ہوتی کہ فلسطین کے سنیوں کو شیعہ ایران کیوں سپورٹ کرتا ہے؟

ایران کے چوٹی کے سائنس دانوں اور اب جرنیلوں کے مارے جانے کے بعد ایرانی عوام کا اپنی حکومت کے خلاف احتجاج بتاتا ہے کہ عوام یہ پوچھتی ہے کہ صرف غراتے ہی رہو گے یا کچھ کرو گے بھی؟

اس حملے کے بعد ایرانی عوام باہر نکل کر خوشی منا رہی ہے اور بزبان حال کہہ رہی ہے کہ ہور چپو عربی حکمرانوں، کم سے کم ہم نے حملہ تو کیا؟

دوسری طرف ایرانی حکومت نے فورا آپریشن ختم کرنے کا اعلان کرکے یہ بتادیا کہ ہمارا ڈائیریکٹ جنگ میں کودنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ ہم اپنی پروکسیز سے ہی کھیلتے رہیں گے۔

پاکستانی عوام وہی ابابیلوں کی آمد اور تکفیریوں کی قبر پر پیشاب کرنے جیسے بیانات میں ہی الجھی رہے گی۔

اس ٹیکنیکلی ڈیفالٹ ملک کے لوگوں کے لہو گرم رکھنے کا یہ اچھا بہانہ ہے

ابو جون رضا

5

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *