ہر سال ماضی کی مقدس ہستیوں کی پیدائش اور وفات کے ایام اس طرح سے منائے جاتے ہیں کہ لگتا ہے یہ ہستیاں دوبارہ پیدا یا شہید ہوئی ہیں۔
خاص کر ان کی وفات کے ایام قریب آتے ہی اعلان کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں شاپنگ کرنا بند کردو، غم مناؤ ، تمہارے رسول کے فلاں رشتہ دار کوفہ میں یا کربلا میں شہید ہورہے ہیں۔
یہ زمان مسلسل حرکت میں ہے، اس لحاظ سے جو لمحہ گزر گیا وہ دوبارہ واپس نہیں آسکتا۔ اگر ماضی میں کوئی مقدس ہستی کسی دن شہید ہوئی تھی تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ہر سال اسی مخصوص دن دوبارہ شہید ہوتی ہے ، دوبارہ اذیت سے گزرتی ہے ۔ اس کے گھر والے چاہے جنت میں ہوں، وہ دوبارہ رونا پیٹنا شروع کردیتے ہیں۔
مجھے کوئی ماضی کی مقدس ہستی کی پیدائش کی مبارکباد دیتا ہے تو اکثر میں پوچھتا ہوں کہ
“کیا یہ مقدس ہستی دوبارہ پیدا ہوئی ہے؟”
یاد رکھیے ! انسان نے فقط اپنی سہولت کے لیے مختلف کیلنڈرز بنائے اور دنیا کی مختلف تہذیبوں، مذاہب اور اقوام، نئے سال کا آغاز اپنی تہذیب، مذہب اور روایات وغیرہ کے داخلی تقاضوں کے تحت کرتی رہی ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ انسان جسے مقدس مہینہ یا دن کہتا ہے، ان سے”تقدیس“ وابستہ کر دیتا ہے وہ واقعی اگلے برس قابل تقدیس بھی ہوتا ہے۔
جو انسان جس لمحے قتل ہوا، جو انسان جس لمحے پیدا ہوا، وہ لمحہ کبھی دوبارہ واپس نہیں آ سکتا۔
اگر کچھ ”مقدس“ تھا تو وہی لمحہ، نہ کہ اگلے برس کا اسی تاریخ میں متعین ہوا کوئی لمحہ، کیونکہ زمان بہاؤ میں ہے اور زمان کو روکنا ناممکن ہے۔ایک سیکنڈ پہلے والا لمحہ ایک سیکنڈ بعد والے لمحے میں کبھی واپس نہیں آ سکتا اور نہ ہی وہ پہلے لمحے سے کوئی مماثلت رکھتا ہے۔
یہ کوئی ایسا پیچیدہ فلسفہ نہیں ہے، معمولی غور و فکر کرنے سے معلوم ہو جائے گا کہ جس لمحے انسان پیدا ہوتا ہے، وہ اگلے برس اسی تاریخ کو کبھی دوبارہ پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی قتل ہونے کے بعد دوبارہ اس لمحے واپس آ کر قتل ہوتا ہے۔
لہذا اگر کوئی شے قابلِ احترام و تکریم و تقدیس ہے تو صرف یہ ”مطلق سچائی“ کہ زمان کو قید نہیں کیا جا سکتا۔ یہی واحد ”مطلق سچ“ ہے جو قابلِ احترام ہے۔
یہ ایک ایسا سچ ہے جس کے احترام کے لیے اگلے برس کی ضرورت بھی نہیں ہے، یہ ہمہ وقت قابلِ تکریم ہے۔ اسے سمجھ کر اپنے عقلیت پسند ہونے کا ثبوت دیں، بصورتِ دیگر مذہبی بدحواس لوگ تو ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں۔
ابو جون رضا