فَرَوَى عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ هَاشِمٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ أَبِي جَعْفَرٍ اَلثَّانِي عَلَيْهِ السَّلاَمُ إِذْ دَخَلَ عَلَيْهِ صَالِحُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَهْلٍ اَلْهَمَدَانِيُّ وَ كَانَ يَتَوَلَّى لَهُ فَقَالَ لَهُ جُعِلْتُ فِدَاكَ اِجْعَلْنِي مِنْ عَشَرَةِ آلاَفِ دِرْهَمٍ فِي حِلٍّ فَإِنِّي أَنْفَقْتُهَا فَقَالَ لَهُ أَبُو جَعْفَرٍ أَنْتَ فِي حِلٍّ فَلَمَّا خَرَجَ صَالِحٌ مِنْ عِنْدِهِ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ عَلَيْهِ السَّلاَمُ أَحَدُهُمْ يَثِبُ عَلَى [ أَمْوَالِ [حَقِّ] آلِ مُحَمَّدٍ وَ فُقَرَائِهِمْ وَ مَسَاكِينِهِمْ وَ أَبْنَاءِ سَبِيلِهِمْ فَيَأْخُذُهُ ثُمَّ يَقُولُ اِجْعَلْنِي فِي حِلٍّ أَ تَرَاهُ ظَنَّ [بِي] أَنِّي أَقُولُ لَهُ لاَ أَفْعَلُ وَ اَللَّهِ لَيَسْأَلَنَّهُمُ اَللَّهُ يَوْمَ اَلْقِيَامَةِ عَنْ ذَلِكَ سُؤَالاً حَثِيثاً.
ترجمہ :
علی بن ابراہیم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک بار میں امام محمد تقی کی خدمت میں حاضر تھا کہ صالح بن محمد بن سہل ان کی خدمت میں حاضر ہوئےجو کہ قم مقدسہ میں آپ کے وکیل تھے۔ انہوں نے کہا ۔ میرے آقا ! مجھے (خمس) کے دس ہزار درہم حلال کردیں جو میں نے خرچ کردیے۔
امام نے فرمایا ، اچھا ! وہ تمہارے لیے حلال ہے
جب صالح باہر چلا گیا تو امام نے فرمایا
“یہ لوگ آل محمد ، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے مال پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور اسے ہضم کرکے آجاتے ہیں اور پھر کہتے ہیں، میرے لیے حلال کردیں ۔ تم کیا سمجھتے ہو کہ اس کا گمان یہ تھا کہ میں یہ کہوں گا کہ میں حلال نہیں کرتا؟
خدا کی قسم ! خدا ان لوگوں سے روز قیامت سخت باز پرس کرے گا”
(اصول کافی جلد 8 ، التہذیب جلد 4 ، استبصار جلد 2 ، الغیبہ طوسی ص 351)
آیت اللہ آصف محسنی کے مطابق یہ روایت معتبر ہے
(معجم احادیث معتبرہ جلد 1 صفحہ 338)
وکلاء کے خمس کا مال ہڑپ کرنے کی ریت ائمہ کے زمانے سے چلی آرہی ہے۔ امام موسی کاظم کے بعض وکلاء کو جب ان کے انتقال کی خبر ملی تو انہوں نے اس بات سے انکار کردیا اور کہا کہ وہ غیبت میں ہیں، جلد واپس آئیں گے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ خمس کا بھاری مال ان کے قبضے میں تھا۔
خمس کے مال کی وجہ سے جہاں علماء حکومت کی طرف سے مالی معاونت سے بے نیاز ہوتے تھے وہاں ان کی ذاتی حیثیت میں معاشرے کے عام افراد کی بنسبت بہت اضافہ ہوتا تھا۔ یہ خمس کے مال کو مختلف انداز میں انویسٹ کرتے اور پھر اس سے منافع بھی سمیٹتے تھے۔
خلفاء راشدین کے زمانے میں دو صحابیوں کو بیت المال سے کچھ پیسے ملے جو انہیں خلیفہ تک پہنچانے تھے۔ انہوں نے اس پیسے سے کچھ ایسا مال خریدا جس کی خلیفہ کی سکونت والے شہر میں بہت مانگ تھی۔ اس مال کو انہوں نے دارالخلافہ پہنچ کر بازار میں بیچ دیا اور اس سے نفع کمایا۔ انہوں نے جب اصل رقم خلیفہ کے حوالے کی اور اپنی ہوشیاری کا قصہ بھی سنایا تو خلیفہ، بغیر اجازت مال میں تصرف کرنے پر بہت ناراض ہوئے ۔ انہوں نے اس تجارت کو مضاربت قرار دیا اور منافع میں سے رب المال کی حیثیت سے کافی روپیہ لیکر بیت المال میں جمع کروادیا۔
صفوی دور میں علماء کی حیثیت اتنی مظبوط ہوگئی تھی کہ ہمارے استاذ گرامی بتاتے ہیں کہ ایک دفعہ بادشاہ نے اپنے محل کی چھت سے دیکھا کہ ہاتھیوں پر لدا ہوا کچھ سامان ایک بڑے قافلے کی صورت میں شہر کی طرف آرہا ہے۔ بادشاہ بہت خوش ہوا کہ شاید میرے لیے کہیں سے تحائف اور خراج آیا ہے۔ پتا کروانے پر معلوم ہوا کہ ہاتھیوں پر لدا ہوا یہ مال کسی بڑے مرجع کے لیے آیا ہے جو ان کے وکیلوں کی وساطت سے فلاں شہر کے تاجران اور عوام نے ان کے لیے بجھوایا ہے اور ساتھ میں تحفے تحائف بھی عالم کے لیے بھیجے ہیں۔
بادشاہ بیچارہ دل مسوس کرکے رہ گیا اور اس کی آنکھوں کے سامنے ہاتھیوں پر لدا ہوا سامان مولانا صاحب کے مدرسے پہنچ گیا۔
علماء کے مدرسے بہت طاقت ور ہوتے تھے۔ وہاں دینی طلاب کی فوج جمع ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ وہ عوام کی عقیدت کا مرکز ہوتے تھے ۔بقول راشد شاز،
” ان مدرسوں نے زوال زدہ مسلم ریاست میں ایک سیاسی عامل کی حیثیت سے اپنی گرفت مضبوط کی تھی۔ انھیں علومِ شرعی کے قلعوں کی حیثیت سے دیکھا جانے لگا تھا۔
جلد ہی تعبیرِ دین پر اہل مدارس کی گرفت اتنی مضبوط ہو گٸی کہ زوال زدہ مسلم ریاست نے اپنی بقا کی خاطر اقتدار میں علماۓ مدارس کی شرکت تک کو گوارہ کر لیا۔
اس طرح دین و دنیا کی تقسیم بالآخر علومِ دین اور علومِ دنیا کی تقسیم پر منتج ہوٸی۔ اول الذکر پر طبقہ علمإ نے یہ کہہ کر اپنی گرفت بلکہ اجارہ داری محفوظ کر لی کہ بعض امور دینی ہوتے ہیں جن پر فیصلہ کا حق صرف علمإ کو ہے سلطان کو اس سے کچھ بھی علاقہ نہیں”
آج بھی دین و دنیا کی یہ تقسیم ہمیں واضح طور پر نظر آتی ہے اور اب تو علماء دین کا طبقہ ہر معاملے میں مذہب کو گھسیڑ کر اپنی رائے پیش کرنا ضروری سمجھتا ہے۔
ابو جون رضا