قوم کا مزاج

شادی ہو یا کسی کی میت ہو ہماری قوم کا مزاج کچھ علیحدہ ہی ہے۔ مثال کے طور پر کسی کی میت کی خبر سن کر نماز جنازہ میں شرکت کے لیے چلے جائیے۔ ایک الگ ہی ماحول دیکھنے کو ملتا ہے۔ مرد حضرات ٹولیوں کی شکل میں الگ الگ کھڑے ہوتے ہیں۔ کچھ سگریٹ سلگا کر حالات حاضرہ پر گفتگو کر رہے ہوتے ہیں تو کچھ سیاست پر گیان بانٹ رہے ہوتے ہیں۔ بس چند لوگ ہوتے ہیں جن کی شکل پر بارہ بجے ہوتے ہیں ان کو دیکھ کر ہی پتا چل جاتا یے کہ مرنے والے کے لواحقین ہیں۔

کچھ پرانے دوست احباب یا کزن کافی عرصے بعد ملے ہوتے ہیں تو ان کے لیے کسی کا مرنا ” نعمت غیر مرتقبہ ” سے کم نہیں ہوتا۔ وہ سارے غم بھلا کر پرانے قصے یاد کرتے ہیں۔ لواحقین کے گھر کے قریب کسی چائے کے ڈھابے پر بیٹھ کر خوش گپیاں کرتے ہیں اور انتظار کرتے ہیں کہ کب اعلان ہو کہ مردہ نہا دھو کر تیار ہوگیا ہے اور اب اس کو گڑھے میں دفن کرنے کا وقت آگیا ہے۔

ان لوگوں میں چند آدم بیزار وہ ہوتے ہیں جو گرد و پیش سے بے نیاز قران کی تلاوت کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کو خوش گپیوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔ اور کچھ وہ ہوتے ہیں جو موبائل پر اسٹیٹس اپ لوڈ کر رہے ہوتے ہیں۔ جس میں نماز جنازہ اور میت کے الفاظ نمایاں ہوتے ہیں۔ ان کا بس نہیں چلتا کہ مردے کے ساتھ دو چار سیلفیاں اپ لوڈ کردیں جن میں مردہ ہونٹ نکالے ہوئے ہو اور یہ خود دو انگلیاں ہوا میں لہرا رہے ہوں۔

کچھ لوگوں کو جلدی ہوتی ہے۔ وہ بس لواحقین سے دو لفظ تسلی کے کہہ کر پتلی گلی سے کھسک لیتے ہیں۔ لازمی سی بات یے مرنے والے کے ساتھ مرا تو نہیں جاتا۔ اب کوئی مرگیا یے تو اس کے اعمال ساتھ جائیں گے۔ دوسرے لوگوں کا وقت کیوں کھوٹا ہو۔

مری نماز جنازہ پڑھی ہے غیروں نے
مرے تھے جن کے لیے وہ رہے وضو کرتے

بعض جگہوں پر دفن کے کے بعد کھاپے کا سلسلہ شروع ہوتا یے۔ گھر والے آنسو ضبط کرتے ہوئے دوسروں کو کھانا کھلا رہے ہوتے ہیں اور کھانے والے بھی ایسا ڈٹ کر کھاتے ہیں جیسے اگر انہوں نے پیٹ بھر کر نہ کھایا تو مردے پر عذاب شروع ہوجائے گا۔

مشتاق احمد یوسفی صاحب بیان کرتے تھے کہ کسی علاقہ میں یہ دستور ہے کہ کوئی بڑا بوڑھا مر جائے تو اس کے پسماندگان برادری کو چالیس دن تک مرغے کھلاتے ہیں ۔اگر کوئی جوان موت ہو جائے تو چہلم تک دال ہی دال کھلائی جاتی ہے۔ چنانچہ کسی بڈھے کو زکام بھی ہو جائے تو گاؤں کے سارے مرغے سہمے سہمے پھرتے ہیں۔ اذان تک دینی چھوڑ دیتے ہیں۔

لوگ میت کے گھر کا کھانا کھانے کے بعد توند پر ہاتھ پھیر کرڈکار مار کر لواحقین سے آخری دفعہ تعزیت کر کے کھسک لیتے ہیں

رہ جاتے ہیں تو سوگواران اور مردے کی تنہائی۔

اس سارے پروسیس میں مردے کا کیا حال ہوتا ہے؟ اس کا بے جان لاشہ کیا لوگوں کو دعوت عبرت نہیں دے رہا ہوتا؟

کیا وہ زبان حال سے نہیں کہہ رہا ہوتا کہ جو دن آج مجھ پر آیا ہے وہ ایک دن تم پر بھی آئے گا ؟

اس بارے میں سوچنے کی کسی کو فرصت کہاں۔۔

سورج اسی طرح نکلے گا۔ معاملات اور دوڑ بھاگ اسی طرح چلتی رہے گی۔ لوگ اسی طرح رہیں گے۔ بس مرنے والا ان کے درمیان نہیں ہوگا۔

یہی ہر ایک کی کہانی ہے۔

“اور جو لوگوں کے لیے نفع بخش ہے وہی باقی بچے گا، باقی سب جھاگ کی طرح بہہ جائے گا”

ابو جون رضا

1

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *