حضرت عائشہ ام المومنین ہیں ان سے وارد روایات کا مزاق اڑانا منکرین حدیث اور کچھ مخصوص بدلحاظ لوگوں کا پرانا شیوہ ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھر کی عورتوں کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں مگر ام المومنین کے لیے ان کی زبان دراز ہوجاتی ہے۔
وجہ ایک ٹولے کی یہ ہے کہ وہ احادیث کو نہیں مانتا جبکہ دوسرا حضرت علی کی محبت میں غلو کرتا ہے۔ اور اپنی ماں کے ہی خلاف اوٹ پٹانگ باتیں کرتا یے۔
رسول اکرم امت کے باپ ہیں۔ اور ان کی بیویاں امت کی مائیں ہیں۔ غور کیجئے کہ یہ گھرانا جس قوم میں دعوت اسلام دے رہا ہے اس میں ہر طرح کے لوگ موجود ہیں۔ صحرائی بدو بھی ہیں، اجڈ لوگ بھی ہیں۔ سخت صحرائی مزاج رکھنے والے اور عورتوں کے ساتھ برا سلوک کرنے والے بھی موجود ہیں۔ بچیوں کو دفن کردینے والے چاہے چند لوگ ہی سہی مگر موجود ہیں. ان میں کچھ کو تو نہانے دھونے کا تمیز بھی نہیں ہے۔ ان کو اسلام کی دعوت بھی دینا ہے اور ان کی تربیت بھی کرنی ہے۔
ایسے افراد کے درمیان میں نبی کریم کا خود بھی تبلیغ کرنا اور اپنی بیویوں کو بھی آگے کردینا کمال درجے کی دین سے وابستگی ہے۔
ام المومنین حضرت عائشہ نے بہت لمبی عمر پائی۔ کیونکہ ان کی جلدی شادی ہوگئی تھی اس وجہ سے وہ رسول اکرم کے بعد بھی طویل عرصے تک زندہ رہیں۔
اگر ان سے کچھ غلطیاں ہوئیں تھیں تو اب وہ معاملات خدا کے پاس ہیں۔ وہی بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔
مگر ان سے نبی کریم کی گھر کی باتوں کا ایک طویل حصہ نقل ہوا ہے ۔ وہ امت کو ان کے روحانی باپ کے اٹھنے بیٹھنے، سونے جاگنے کا طریقہ بتاتی تھیں اور ان کے مخاطب لوگ ان کی اولاد قرار پائے تھے۔ اس وجہ سے وہ رسول اکرم کی گھریلو باتوں کو ان سے دریافت کرتے تھے۔
اب چاہے وہ رسول اکرم کا غسل کا طریقہ ہے، چاہے وہ سونے کا طریقہ ہے یا گھر کی کوئی اور بات ہے۔ وہ سب بیان کی جارہی ہے کہ اس امت کا روحانی باپ کیسےگھریلو زندگی گزارتا تھا۔
اب اس روایت کی طرف آتے ہیں جس پر اعتراض ہے۔ اعتراض یہ ہے کہ کیسے ام المومنین نے غیر مردوں کو غسل کا طریقہ بیان کیااور عملی طور پر کر کے دکھایا جبکہ درمیان میں باریک پردہ حائل تھا؟
حضرت عائشہؓ کے غسل والی روایت صحیح بخاری کتاب الغسل، باب الغسل بالصاع ونحوہ میں موجود ہے۔
اس میں ابوسلمہؓ بیان فرماتے ہیں کہ:
’’ میں اور حضرت عائشہ کے بھائی حضرت عائشہؓ کے پاس گئے اور حضرت عائشہؓ کے بھائی نے ان سے نبیﷺ کے غسل کی بابت دریافت کیا۔اس پر حضرت عائشہؓ نے ایک برتن منگایا جو قریب قریب ایک صاع کے برابر تھا اور انھوں نے غسل کیا اور اپنے سر پر پانی بہایا،اس حال میں کہ ہمارے اوران کے درمیان پردہ تھا۔‘‘
(بخاری، كِتَاب الْغُسْلِ،بَاب الْغُسْلِ بِالصَّاعِ وَنَحْوِهِ،حدیث نمبر:۲۴۳)
اس حدیث پر اعتراض کرنے والوں کی پہلی غلطی یہ ہے کہ وہ ابو سلمہؓ کا نام پڑھ کر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ کوئی غیر شخص تھے،حالاں کہ وہ حضرت عائشہؓ کے رضاعی بھانجے تھے جنھیں حضرت امِ کلثوم بنت ابی بکر صدیقؓ نے دودھ پلایا تھا۔پس دراصل یہ دونوں صاحب جو حضرت عائشہ ؓ سے مسئلہ پوچھنے گئے تھے،آپ کے مَحرم ہی تھے،ان میں سے کوئی غیر نہ تھا۔
پھر دوسری غلطی،بلکہ زیادتی وہ یہ کرتے ہیں کہ روایت میں تو صرف ’’حجاب‘‘ یعنی پردے کا ذکر ہے مگر یہ لوگ اپنی طرف سے اس میں یہ بات بڑھا لیتے ہیں کہ وہ پردہ باریک تھا، اور اس اضافے کے لیے وہ دلیل یہ دیتے ہیں کہ اگر باریک نہ ہوتا جس میں سے حضرت عائشہ ؓنہاتی ہوئی نظر آسکتیں تو پھر اُسے درمیان میں ڈال کر نہانے سے کیا فائدہ تھا؟حالاں کہ اگر انھیں یہ معلوم ہوتاکہ اُس وقت مسئلہ کیا درپیش تھا جس کی تحقیق کے لیے یہ دونوں صاحب اپنی خالہ اور بہن کے پاس گئے تھے،تو انھیں اپنے اس سوال کا جواب بھی مل جاتا اور یہ سوچنے کی ضرورت بھی پیش نہ آتی کہ پردہ باریک ہونا چاہیے تھا۔ دراصل وہاں سوال یہ نہ تھا کہ غسل کا طریقہ کیا ہے،بلکہ بحث یہ چھڑ گئی تھی کہ غسل کے لیے کتنا پانی کافی ہوسکتاہے۔بعض لوگوں کو نبی ﷺ کے متعلق یہ روایت پہنچی تھی کہ آپ ایک صاع بھر پانی سے غسل کرلیتے تھے۔اتنے پانی کو لوگ غسل کے لیے ناکافی سمجھتے تھے اور ایک اور غلط فہمی یہ تھی کہ وہ غسل جنابت اور غسل بغرض صفائی بدن کا فرق نہیں سمجھ رہے تھے۔
حضرت عائشہؓ نے ان کو تعلیم دینے کے لیے بیچ میں ایک پردہ ڈالا جس سے صرف ان کا سر اور چہرہ ان دونوں صاحبوں کو نظر آتا تھا اور پانی منگا کر اپنے اوپر بہایا۔ اس طریقے سے حضرت عائشہؓ ان کو دو باتیں بتانا چاہتی تھیں ۔
ایک یہ کہ غسل جنابت کے لیے صرف جسم پر پانی بہانا کافی ہے۔دوسرے یہ کہ اس مقصد کے لیے صاع بھر پانی کفایت کرتا ہے۔
اس تشریح کے بعد آپ خود سوچیں کہ اس میں آخر قابل اعتراض کیا چیز ہے جس کی بِنا پر خواہ مخواہ ایک حدیث کا انکار کرنے کی ضرورت پیش آئے اور پھر اُسے تمام حدیثوں کے غیر معتبر ہونے پر بھی دلیل ٹھیرایا جائے یا واہیات گفتگو کی جائے۔ مزاق اڑایا جائے اور طنز کے نشتر چلائے جائیں۔
لیکن جن کے دل میں بغض یا گندگی ہے وہ اوٹ پٹانگ باتیں ہی سوچ سکتے ہیں۔ ایک سمجھدار انسان کبھی کوئی غلط بات نہیں سوچے گا۔
ان لوگوں کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ کس کے گھر میں گھس رہے ہیں؟ یہ اللہ کو حشر میں کیا منہ دکھائیں گے؟
اللہ ان کو ہدایت دے یہ کہاں بھٹکے پھرتے ہیں
ابو جون رضا
www.abujoanraza.com