جناب سکینہ کے خطبات اور ان کی شادی وغیرہ کے قصے تاریخ کی کتابوں میں موجود ہیں۔ وہ بہت اچھی شاعرہ تھیں اور ان کا مہر اتنا زیادہ باندھا گیا تھا کہ اس وقت عرب میں بھی اس کا بہت شہرہ ہوا تھا۔
واقعہ کربلا کے وقت وہ جوان تھیں۔
امام حسین کی دو ہی بیٹیاں ہیں۔ ایک فاطمہ ہیں دوسری سکینہ ہیں۔ اور جناب سکینہ کا زندان شام میں انتقال کا واقعہ من گھڑت ہے۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اہل بیت چند دن سے زیادہ قید میں نہیں رہے۔
مقتل مقرم میں بھی ان کی اسیری کا زکر بہت مختصر ہے۔ یہاں تک کہ جناب سجاد کے باہر گھومنے اور منہال سے ملاقات کا زکر ہے۔ اس لیے یہی روایت زیادہ بہتر لگتی ہے کہ اہل بیت تین دن سے زیادہ قید میں نہیں رہے کیونکہ واپس شام سے کربلا تک کا سفر اگر مان لیا جائے تو لمبی قید کی وجہ سے چہلم پر اسیران کربلا کا واپس کربلا پہنچنا محال ہے۔
ہمارے یہاں کیونکہ روضہ الشہداء نامی کتاب میں نقل شدہ واقعات زیادہ مشہور ہیں اس وجہ سے ہمیشہ سے ایک چھوٹی بچی کا زکر کربلا میں ملتا ہے جو امام حسین کے گھوڑے کے قدموں سے لپٹ گئی اور اس کو امام کے سینے پر سلانے والے واقعات اور زندان میں انتقال وغیرہ اسی کتاب کی چنگاریاں ہیں۔
بعض کتب میں ایک چھوٹی بچی جس کا نام زینب تھا اور اس کو رقیہ بھی کہا جاتا ہے اس کا دربار میں انتقال کرجانے کے واقعے کا زکر یے جس نے امام حسین کے سر کو گود میں لیا تھا اور اس کی روح پرواز کر گئی تھی۔
ممکن ہے یہ وہی بچی ہو جس کے احوال جناب سکینہ سے غلط منسوب ہوگئے ہیں۔
لیکن اس بچی کا امام حسین کی بیٹی ہونا ثابت نہیں ہے۔
اب جناب سکینہ کا واقعہ اتنا پڑھا گیا ہے اور نوحے مرثیے کی زینت بنا ہے کہ اس کا انکار عام لوگوں کے بس کی بات نہیں ہے۔
وہ اگر اس واقعے کا انکار کر دیں گے تو پھر صفر میں رونے پیٹنے کے لیے کیا بچے گا؟
طالب جوہری صاحب جو مصائب اپنی مقتل کی کتاب میں لکھ گئے وہ مصائب انہوں نے کبھی پڑھے نہیں۔ جیسے پانی کا شب عاشور خیموں میں موجود ہونا۔
اب جو تحقیق کرنا چاہتا ہے اس کے لیے تاریخی کتب موجود ہیں۔ وہ جو چاہے رائے اختیار کرے۔
جو عام روش پر رہنا چاہتا ہے تو اس کی اپنی مرضی ہے۔ یہ کوئی ایمان اور اسلام کا مسئلہ نہیں ہے۔ نہ اس کا حشر میں سوال ہوگا۔
اللہ دین کو صحیح معنوں میں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے
ابو جون رضا