اقامت دین اور جہادی بیانیہ۔ ایک جائزہ (3)

اس سلسلے کی تیسری قسط میں ڈاکٹر اسرار احمد کا ذکر کیا جائے گا۔ ڈاکٹر اسرار بھی مولانا مودودی کے تلامذہ میں سے تھے۔ ان کے استاذوں میں ایک نام امین احسن اصلاحی صاحب کا بھی آتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے جماعت اسلامی سے علیحدگی کے بعد تنظیم اسلامی کی بنیاد ڈالی تھی اور تاحیات اس کے امیر رہے۔

ڈاکٹر اسرار خلافت کے بہت بڑے داعی تھے اور سمجھتے تھے کہ اگر لاکھ دو لاکھ افراد ان کی تنظیم کے پرچم تلے اکھٹے ہوجائیں تو غیر شرعی یا فاسق حکومت کے خلاف عملی اقدام کیا جاسکتا ہے۔

وہ جہاد فی السبیل اللہ کی آخری منزل قتال فی سبیل اللہ قرار دیتے تھے۔

آپ لکھتے ہیں۔

” اقامت دین اور غلبہ دین حق کی اس جدوجہد میں جس کے لیے قران کریم کی ایک اصطلاح “اظہار دین الحق علی الدین کلہ” کی بھی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ کوئی خواہ کتنا ہی ناپسند کرے تصادم کی یہ منزل آکر رہے گی۔ اگ و خون کی ندیوں کو بہرحال عبور کرنا ہوگا۔ اہنے خون کا نذرانہ بہرکیف پیش کرنا ہوگا۔ اس لیے کہ یہ نظام کو بدلنے کا معاملہ ہے۔ وعظ و نصیحت سے آگے بڑھ کر عدل و انصاف کو بالفعل رائج کرنے کا معاملہ ہے۔ یہاں وہ تصادم انتہائی شدت پکڑ لیتا ہے اور جہاد بالفعل “قتال” کی شکل اختیار کرتا ہے”

اگے چل کر فتنہ کے بیان میں لکھتے ہیں

“اس زمین پر اللہ کا حق ہے کہ اسی کی حکومت قائم ہو۔ لیکن اگر یہاں کسی اور نے اپنی حکمرانی کا تخت بچھایا ہوا ہے اور کسی فرعون یا نمرود کی مرضی یہاں رائج ہے تو یہی درحقیقت قران کی اصطلاح میں فتنہ ہے۔ یہ فساد فی الارض کی بدترین شکل یے۔ اس فتنے کو ختم کرنا اور اس بغاوت کو فرو کرنا ایک بندہ مومن کا مقصد حیات بن جانا چاہیے۔ اگر وہ واقعتاً اللہ کو ماننے والا ہے اور اگر اس نے واقعتاً دین کو قلب و ذہن کی متفقہ شہادت کے ساتھ قبول کیا ہے تو اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ پھر ہر ایسے نظام کو جس میں خدا کی مرضی اور خدا کے حکم کو فائنل اتھارٹی کی حثیت سے قبول نہ کیا جائے، فتنہ اور بغاوت سمجھے گا، چاہے وہاں بظاہر بڑا امن و امان ہو اور وہاں ہر طرح سے زندگی کا کاروبار سکون سے جاری ہو۔ قران کی رو سے غیر اللہ کی حکومت اور غیر اللہ کا نظام مجسم فتنہ اور مجسم بغاوت ہے۔ لہذا اس کے خلاف سینہ سپر ہوجانا اوت اپنے جان و مال کو دین کی حمایت میں کھپا دینا ایمان کا لازمی نتیجہ یے۔ یہ ایمان حقیقی کا رکن لازم ہے”

(جہاد و قتال فی سبیل اللہ صفحہ 11)

(جاری)

2

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *