
اس آیت کو دیکھیے
اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍ ؕ فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ وَ عَلَی الَّذِیۡنَ یُطِیۡقُوۡنَہٗ فِدۡیَۃٌ طَعَامُ مِسۡکِیۡنٍ ؕ فَمَنۡ تَطَوَّعَ خَیۡرًا فَہُوَ خَیۡرٌ لَّہٗ ؕ وَ اَنۡ تَصُوۡمُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۸۴﴾
۱۸۴۔( یہ روزے) گنتی کے چند دن ہیں، پھر اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں مقدار پوری کر لے اور جو لوگ روزہ رکھنے میں مشقت محسوس کرتے ہیں وہ فدیہ دیں جو ایک مسکین کا کھانا ہے، پس جو اپنی خوشی سے نیکی کرے تو اس کے لیے بہتر ہے اور اگر تم سمجھو تو روزہ رکھنا تمہارے لیے بہتر ہے۔
(سورہ بقرہ)
میں بقرہ کو پڑھ رہا تھا تو یہ آیت پڑھ کر کافی حیرت ہوئی۔
یہ آیت جب بغیر کسی تفسیر یا حدیث کے پڑھی تو مزید حیرت ہوئی۔ مفسرین نے اس کو ان لوگوں سے خاص کیا ہے کہ جو پہلے طاقت رکھتے تھے، اب نہیں رکھتے۔ یعنی بوڑھے لوگ، ناتواں لوگ۔
بعض نے اس آیت کو تدریجا بتایا کہ شروع میں آسانی دی گئی، بعد میں آسانی اٹھا لی گئی جیسا کہ اگلی آیت میں بیان ہوتا ہے۔ یعنی پچھلی آیت منسوخ ہوگئی.
اگر غور سے دیکھیں تو قرآن ایسی کوئی بات نہیں کرتا۔
اب ذرا اس روایت کو دیکھیے۔
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، قَالَ: سَمِعْتُ شَقِيقَ بْنَ سَلَمَةَ، قَالَ:” كُنْتُ عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ، وَأَبِي مُوسَى، فَقَالَ لَهُ أَبُو مُوسَى: أَرَأَيْتَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، إِذَا أَجْنَبَ فَلَمْ يَجِدْ مَاءً كَيْفَ يَصْنَعُ؟ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: لَا يُصَلِّي حَتَّى يَجِدَ الْمَاءَ، فَقَالَ أَبُو مُوسَى: فَكَيْفَ تَصْنَعُ بِقَوْلِ عَمَّارٍ، حِينَ قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَانَ يَكْفِيكَ، قَالَ: أَلَمْ تَرَ عُمَرَ لَمْ يَقْنَعْ بِذَلِكَ، فَقَالَ أَبُو مُوسَى: فَدَعْنَا مِنْ قَوْلِ عَمَّارٍ كَيْفَ تَصْنَعُ بِهَذِهِ الْآيَةِ، فَمَا دَرَى عَبْدُ اللَّهِ مَا يَقُولُ، فَقَالَ: إِنَّا لَوْ رَخَّصْنَا لَهُمْ فِي هَذَا لَأَوْشَكَ إِذَا بَرَدَ عَلَى أَحَدِهِمُ الْمَاءُ أَنْ يَدَعَهُ وَيَتَيَمَّمَ، فَقُلْتُ لِشَقِيقٍ: فَإِنَّمَا كَرِهَ عَبْدُ اللَّهِ لِهَذَا، قَالَ: نَعَمْ”.
ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا کہ کہا ہم سے میرے والد حفص بن غیاث نے، کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ میں نے شقیق بن سلمہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں عبداللہ (عبداللہ بن مسعود) اور ابوموسیٰ اشعری کی خدمت میں تھا، ابوموسیٰ نے پوچھا کہ ابوعبدالرحمٰن! آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر کسی کو غسل کی حاجت ہو اور پانی نہ ملے تو وہ کیا کرے۔ عبداللہ نے فرمایا کہ اسے نماز نہ پڑھنی چاہیے۔ جب تک اسے پانی نہ مل جائے۔ ابوموسیٰ نے کہا کہ پھر عمار کی اس روایت کا کیا ہو گا جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا تھا کہ تمہیں صرف (ہاتھ اور منہ کا تیمم) کافی تھا۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ تم عمر رضی اللہ عنہ کو نہیں دیکھتے کہ وہ عمار کی اس بات پر مطمئن نہیں ہوئے تھے۔ پھر ابوموسیٰ نے کہا کہ اچھا عمار کی بات کو چھوڑو لیکن اس آیت کا کیا جواب دو گے (جس میں جنابت میں تیمم کرنے کی واضح اجازت موجود ہے) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما اس کا کوئی جواب نہ دے سکے۔
صرف یہ کہا کہ اگر ہم اس کی بھی لوگوں کو اجازت دے دیں تو ان کا حال یہ ہو جائے گا کہ اگر کسی کو پانی ٹھنڈا معلوم ہوا تو اسے چھوڑ دیا کرے گا۔ اور تیمم کر لیا کرے گا۔ (اعمش کہتے ہیں کہ) میں نے شقیق سے کہا کہ گویا عبداللہ نے اس وجہ سے یہ صورت ناپسند کی تھی۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں۔
( بخاری رقم 346)
مسند ابی شیبہ میں ہے کہ حضرت عمر اور حضرت عبداللہ ابن مسعود دونوں نے بعد میں اپنے اس خیال سے رجوع کرلیا تھا۔ عبداللہ ابن مسعود کو اہل تشیع میں بھی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، وہ بتا رہے ہیں کہ امت پر سختی اس لیے انہوں نے کی کہ اگر چھوٹ دی گئی لوگ جب دل چاہا ، پانی ذرا سا ٹھنڈا لگا تو تیمم کرنے لگیں گے۔
صاف پتا چل رہا ہے کہ “یرید اللہ بکم الیسر” کو مد نظر نہیں رکھا جارہا بلکہ ذاتی خیالات کو امت پر ٹھونسا جارہا ہے۔ سختی برتی جارہی ہے۔
یہ ابتدائی دور کا حال ہے، بعد میں تو فقہ کے انبار لوگوں پر لاد دیے گئے یہاں تک کہ داڑھی کی مقدار پر مسلمان ہونے نہ ہونے کہ فیصلے ہونے لگے۔
کتنا آسان دین رسول اکرم دیکر گئے۔ کیا سے کیا بنا دیا۔
ابو جون رضا