نئے عملیات، نذر نیاز اور ذہنی قلابازیاں

نئی نئی نذر نیازیں اور عملیات کیسے مشہوری پاتے ہیں؟

ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔

فرض کرتے ہیں کہ کسی مقدس ہستی کی پیدائش ہے ۔ عقیدت مند نے اس کے بارے میں کچھ پڑھ لیا یا سن لیا کہ وہ مقدس ہستی فلاں چیز بہت رغبت سے کھاتی تھی۔ فلاں کلر اس کو پسند تھا۔

دماغ میں بیٹھے بیٹھے ایک خرافاتی خیال آتا ہے کہ اس کلر کی فلاں چیز ہمارے یہاں ملتی ہے۔ فورا وہ چیز منگوائی گئی، اسی کلر کا دسترخوان بچھایا، اس پر دو چار پسند کی سورتیں یا کوئی جھوٹا سچا قصہ پڑھ کر اس ہستی کو ہدیہ کردیا گیا ۔ عمل تیار ہوگیا۔

اس کے پیچھے مقصد کیا ہوتا ہے؟

وہ مقدس ہستی خوش ہو جائے اور بدلے میں “رزق” میں اضافہ کردے۔

اب ہوتا یہ ہے کہ کھانا کھلانا ویسے بھی خدا کو پسند ہے۔ صلہ رحمی سے عمر اور رزق بڑھتا ہے۔

اس دسترخوان یا نذر کے فورا بعد کوئی ٹینڈر کھل جاتا ہے، کوئی ترقی ہوجاتی ہے، کوئی پھنسا ہوا کام اچانک سے نکل جاتا ہے تو فورا اس نذر یا دسترخوان پر عقیدہ پختہ ہوجاتا ہے اور اس کو مقدس ہستی کی کرامات بتایا جاتا ہے۔

پھر یہ خیال آتا ہے کہ صرف ہم ہی کیوں اس ” ناٹک” سے اکیلے مستفید ہوں، سب سے پہلے قریبی بہن بھائی رشتہ داروں کو یہ طریقہ اپنانے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ اس طرح سے بدعت پھیلتی چلی جاتی ہے۔

ایک سوال ہے کہ کسی نے کھانا کھلانا ہے تو بغیر کسی عملیات اور وظائف کے بھی کھلا سکتا ہے؟ یہ ڈرامہ بازی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

اگر زیادہ شوق ہورہا ہے تو سورہ یس کی شرح اور ترجمہ لوگوں کو بٹھا کر بیان کیجیے، جو خود بتا رہی ہے کہ یہ قران اس لیے آیا ہے کہ زندوں کو ہدایت دے۔ مردوں کو بخشوانے نہیں آیا۔ لیکن سارے پراسیس میں جب تک مقدس ہستی شامل نہ ہو، تب تک دل کو تسلی کیسے ملے گی جس میں خدا کے سواء ہر کسی کا بسیرا ہے۔

کڑی تپسیا سے مقدس ہستیاں تلاش کی جاتی ہیں، جیسے جناب فاطمہ بنت اسد۔ یہ مولا علی کی والدہ ہیں۔ یہ اگر خوش ہوگئیں تو پھر ان کے فرزند جو “غریبوں کے مشکل کشاء” ہیں، وہ فورا کوئی نہ کوئی انعام دیں گے کہ اس شخص نے میری والدہ کو خوش کردیا۔ ان کے نام پر کچھ پکایا جاتا ہے، دو چار تسبیحات الگ الگ انداز میں پڑھی جاتی ہیں۔ عمل تیار ہوجاتا ہے۔

عباس صاحب انچولی کی مشہور شخصیت تھے۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ جنات ان کے قبضے میں ہیں۔ مشہور زمانہ عامل کامل تھے۔

انہوں نے کسی مرید کو کہا کہ تین شعبان کو سفید مرغا پکا کر اس پر امام حسین کی نیاز دلاؤ ، سارا سال رزق میں برکت رہے گی۔ گھر کے ہر “کمانے والے” فرد کے نام پر الگ مرغا ہونا چاہیے۔

یہ بات نشر ہوگئی اور زبان زد عام ہوگئی۔ اب ہوا یہ کہ شعبان کا مہینہ آیا نہیں کہ “سفید مرغوں” کی شامت آجاتی تھی۔ انچولی تو چھوڑیے، قریب کی واٹر پمپ کی وسیع مارکیٹ جہاں گوشت سبزی وافر مقدار میں ملتا ہے، وہاں سفید مرغوں کا کال پڑ جاتا تھا۔ دکانداروں کو بھی پتا چل گیا کہ کوئی نذر نیاز کا چکر ہے، وہ سفید مرغا مہنگے داموں بیچتے تھے۔ کمال تعجب یہ ہے یہ سارے رزق کے اضافے انچولی والوں کے لیے ہی تھے۔ محمدی ڈیرہ ملیر، جعفر طیار والوں کو اس کی کوئی خبر نہ تھی۔

اس طرح سے یہ بدعات نمو پاتی ہیں۔

اگر نذر نیاز کے فورا بعد کوئی آفت آجائے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ کوئی بے حرمتی ہوگئی ہے۔ اسباب ڈھونڈے جاتے ہیں۔ بہو پر ملبہ ڈالا جاتا ہے کہ یہ “پاکی ناپاکی” کا خاص خیال نہیں رکھتی۔ برتن شاید تین دفعہ نہیں دھلے، بچوں نے گھر میں جگہ جگہ پیشاب کررکھا ہے، پیمپر ادھر ادھر پڑے رہتے ہیں، پیشاب کے کپڑے دوسرے کپڑوں کے ساتھ ملا کر مشین میں دھو دیے، صحیح سے پاک نہیں کیے وغیرہ ، مولا تو ناراض ہونگے ہی، آفت تو آنی تھی۔

یعنی مولا نے یہ نہیں دیکھا کہ کتنی محنت سے غریبوں نے ان کی پسند کے “پسندے” بنائے، وہ برتن تین دفعہ دھلے نہ ہونے کی وجہ سے دروازے سے “انہوں ہوں” کہہ کر لوٹ گئے یا کھانا عالم بالا سے “فرشتہ کورئیر” کے زریعے اہل خانہ کے منہ پر دے مارا۔

قدیم زمانے میں بھی انسان آفات سے بچنے کے لیے یا رزق میں اضافہ کے لیے، فصل کے اچھے ہونے کے لیے مختلف دیوی دیوتاؤں کی نذر دلاتا تھا۔ ان کے نام پر مختلف عمل کرتا تھا۔ اگر کوئی آفت آتی تھی تو سمجھا جاتا تھا کہ دیوتا ناراض ہوگئے۔ فورا مذہبی پروہت سے رجوع کرکے کوئی نہ کوئی عمل طلب کیا جاتا تھا جس کی وجہ سے دیوتا خوش ہو جائیں اور بلا ٹل جائے۔

آج مسلمانوں میں بھی اسی طرح کے “شیعہ سنی” مقدس دیوتا پائے جاتے ہیں جو عالم بالا میں بیٹھ کر چھڑی ہلاتے ہیں اور کام ہوجاتا ہے۔

اللہ ان کو ہدایت دے، عقل و شعور دے، یہ کہاں بھٹکے پھرتے ہیں۔

ابو جون رضا

2

1 thought on “نئے عملیات، نذر نیاز اور ذہنی قلابازیاں”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *