
سورہ فاتحہ کا اختتام اس دعا پر ہوا تھا کہ ہمیں ہدایت والے راستے پر چلا ، ان لوگوں کا راستہ جن پر تیری نعمتیں نازل ہوئیں، جو گمراہ نہیں ہوئے نہ ہی ان پر تیرا “غضب” نازل ہوا۔
سورہ بقرہ میں ان لوگوں کا ذکر ہونا چاہیے جن کے راستے پر چلنے کی دعا کی گئی ہے ، وہ ہدایت یافتہ لوگ ہیں۔
سورہ کا آغاز الم سے ہوا ہے۔ یہ تین حروف کیوں رکھے گئے ہیں، اس کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر ایک دم سے تین چار حروف کسی مجمع میں زور سے کہے جائیں تو مجمع متوجہ ہوجاتا ہے کہ یہ آدمی کچھ کہنا چاہ رہا ہے۔ جس مجمع سے مخاطب ہوکر یہ الفاظ کہے گئے ہیں، ان کے کلچر میں ہوسکتا ہے ان کا کوئی مطلب ہو، مگر فی الحال آج کے حساب سے ان کی ضرورت کا اندازہ نہیں ہوتا۔
اگلی آیت میں فورا ہدایت کی بات کی گئی ہے۔ یہ کتاب کوئی شک نہیں کہ ہدایت کی کتاب ہے۔ یہاں خدا کو اس حوالے سے کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہے کہ اس نے ہدایت کی کتاب اتار دی ہے۔ یہ ان لوگوں کے لیے ہدایت ہے جو تقوی والے ہیں۔ جن کے پاس تقوی نہیں ہے، وہ اس کتاب کی ہدایت سے محروم رہیں گے۔
تقوی کے معنوں میں ظاہراً کوئی عبادت کا طریقہ تو مراد نہیں لیا جاسکتا۔ کم سے کم الفاظ میں وہ لوگ مراد ہونگے جو معاشرے کے لیے مضر رساں نہ ہوں، اچھے لوگوں میں ان کا شمار ہوتا ہو۔ لیکن قران تعریف بیان کرتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں نیز جو کچھ خدا نے انہیں عطا کیا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں، اور جو کچھ پیغمبر پر نازل کیا گیا نیز اس پیغمبر سے پہلے نازل کیا گیا ہے، ان پر ایمان اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔
یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی فلاح پانے والے ہیں۔
پچھلے سورہ میں جن لوگوں کے راستے پر چلنے کی دعا مانگی گئی ہے۔ وہ ہدایت یافتہ لوگوں کا راستہ ہے۔ ان کی تفصیل ان چند آیات میں کردی گئی ہے۔
کم سے کم معیار جو نظر آرہا ہے وہ آخرت پر ایمان ہے، پچھلی کتابوں پر ایمان ہے اور غیب پر ایمان ہے۔ نماز پڑھتے ہیں اور جو مال دیا گیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
دیکھا جائے تو یہ کوئی بہت بڑا مطالبہ نہیں ہے۔
سورہ بقرہ میں “ہدایت” کو میں نے تلاش کیا۔
آیت نمبر پانچ میں آیا ہے، سولہ میں دو مرتبہ آیا ہے۔ ان لوگوں کا ذکر ہے جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی ہے۔
آیت 26 میں خدا نے مثالوں کے زریعے ہدایت دینے کی بات کی ہے۔ لیکن ان مثالوں سے بعض لوگ گمراہ بھی ہوجاتے ہیں۔
آیت 38 میں دو مرتبہ ہدایت کی بات کی گئی کہ جس نے خدا کی طرف سے دی گئی ہدایت کی پیروی کی تو اس کا شمار ان لوگوں میں ہوگا جن کو کوئی خوف ہوگا نہ ہی وہ غمگین ہونگے۔
آیت 53 میں حضرت موسیٰ کا ذکر کرکے بتایا ہے کہ ان کو کتاب دی گئی تاکہ لوگ ہدایت حاصل کریں۔
آیت 97 میں ایمان والوں کے لیے قرآن کو ہدایت بتایا گیا ہے۔
آیت 120 میں پھر کہا گیا ہے کہ خدا کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے۔
آیت 132 میں ایمان کا معیار بیان کیا گیا یے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ یہ لوگ اس وقت ایمان والے بنیں گے جب اس طرح کا ایمان لائیں جیسا تم لائے ہو۔ پھر یہ ہدایت پر ہونگے۔ اس سے ظاہر ہورہا ہے کہ پیغمبر بھی ایمان لایا ہے۔ اس کا ایک معیار ہے، لوگوں سے مطلوب ہے کہ وہ بھی اسی لیول تک پہنچیں۔
آیت 142 میں ہدایت کے پہنچنے کو خدا نے خود سے خاص کیا یے، یعنی کسی اور کی کوشش کا کوئی دخل نہیں ہے
آیت 143 میں کچھ لوگوں کی تعریف کی گئی ہے کہ ان کے لیے کسی طرف بھی رخ کرلینے میں کوئی مشکل نہیں یے اگر وہ سمجھ لیں کہ حکم اللہ کی طرف سے آرہا ہے۔
آیت 150 میں کہا جارہا ہے کہ خدا سے ڈور تاکہ “نعمتیں” تمام ہوں، شاید تم ہدایت پاؤ
اس آیت کا بھی پچھلے سورہ سے ربط مل رہا ہے۔ وہاں دعا کی گئی تھی، یہاں بتایا گیا ہے خدا کا خوف نعمتوں کے تمام ہونے کا اور ہدایت پانے کا سبب ہے۔
آیت 157 میں کچھ لوگوں پر درود بھیجا گیا ہے ان پر رحمت بھی ہے اور یہی ہدایت یافتہ ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں اس کے لیے سیاق دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو مصیبت میں صبر کرتے ہیں اور اللہ کی طرف لوٹ جانے کی بات کرتے ہیں۔ یعنی شکوے شکایت والے لوگ نہیں ہیں۔
آیت 159 میں ہدایت کو چھپا لینے والوں پر لعنت کی گئی ہے۔ اگر بات مخاطب پر واضح ہوگئی ہے اور وہ اس کو چھپا رہا ہے تو ان پر لعنت کی گئی ہے۔
آیت 170 میں آباو اجداد کی پیروی کی مذمت کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ اگر تمہارے اجداد بے عقل ہوں اور ہدایت یافتہ نہ ہوں تو کیا پھر بھی ان کی پیروی کرو گے؟
آیت 175 میں کچھ لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے جنہوں نے ہدایت کے بدلے “ضلالت” اور مغفرت کے بدلے “عذاب” خریدا ہے۔ پھر بڑی تعجب سے کہا گیا یے کہ ان میں کتنی برداشت ہے کہ یہ آتش جہنم کو جھیلنے کو تیار ہیں؟ یہ آیت دوبارہ پچھلے سورہ سے ملحق ہوتی نظر آتی ہے جہاں ایسے لوگوں سے پناہ مانگی گئی تھی۔
آیت 185 میں بیان کیا گیا ہے کہ قرآن رمضان میں نازل ہوا ہے۔ یہ لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور ایسے دلائل پر مشتمل ہے جو “ہدایت” اور “ضلالت” میں امتیاز کرنے والے ہیں۔ اگر کسی کو ہدایت ملی ہے تو اس کو خدا کی عظمت بیان کرنا چاہیے۔
آیت 256 کہتی ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔ ہدایت اور ضلالت میں فرق واضح ہوگیا ہے۔ جو طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لے آئے اس نے نہ ٹوٹنے والا سہارا تھام لیا ہے۔
آیت 272 میں پیغمبر سے کہا جارہا ہے کہ آپ کے ذمے نہیں ہے کہ ان کو “ہدایت” دیں بلکہ خدا ہی جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔
یہاں پہنچ کر سورہ بقرہ میں ہدایت کا ذکر ختم ہوا ہے۔ جو مکمل طور پر پچھلے سورہ یعنی سورہ فاتحہ کی دعا کو کھول کر بیان کرتا ہے۔
ایک دوسری چیز جس سے پناہ سورہ فاتحہ میں مانگی گئی تھی وہ خدا کا “غضب” ہے۔
سورہ بقرہ میں آیت 61 میں بیان ہوا ہے کہ حضرت موسی کی قوم نے ان سے اعلی کی جگہ ادنی چیزوں کی فرمائش کی تھی جس پر انہوں نے جواب دیا کہ اگر یہ سب چاہیے تو کسی بھی شہر میں اتر جاو، وہاں یہ سب مل جائے گا۔ یعنی خدا کی طرف سے کوئی نعمت مل رہی تھی تو اس کو لوگوں نے ٹھکرا دیا، اس پر وہ خدا کے “غضب” میں مبتلا ہوگئے۔
اس کے بعد سورہ البقرہ کی آیت 90 بیان کرتی ہے کہ کچھ لوگ اللہ کے نازل کیے ہوئے کا انکار کرتے رہے ، سیاق سے لگ رہا ہے کہ یہ بنی اسرائیل ہیں جن سے بات کی جارہی ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے دل غلاف میں بند ہیں۔ یہ انبیاء کو قتل کرتے رہے۔ ان پر خدا کا غضب بالائے غضب ہوا ہے۔
یہاں اندازہ ہورہا ہے کہ سورہ فاتحہ کی دعا میں ان لوگوں کے رستے پر چلنے سے خدا کی پناہ طلب کی گئی ہے۔
کمال تعجب ہے کہ سورہ بقرہ میں سب سے زیادہ “ہدایت” کی بات کی گئی ہے۔ اگر یہ مختلف ادوار اور اوقات میں نازل ہونے والا کلام ہے تو انسان کی بس کی بات نہیں ہے کہ وہ اس قدر مربوط انداز میں پچھلے وقتوں میں کی گئی بات کو بہترین طریقے سے واضح کرے۔ اگر یہ سارا کلام ایک باری میں اترا ہے تو پھر اس میں کوئی خاص بات نہیں ہے، مصنف ان چیزوں کا خیال رکھتا ہے۔ لیکن اگر یہ مختلف اوقات میں نازل ہوا ہے تو بہت حیرت کی بات ہے۔
ایک اور خاص بات یہ نظر آرہی ہے کہ خدا کے انسانوں سے تقاضے زیادہ نہیں ہیں۔ وہ ہدایت کو چند چیزوں میں محدود کرتا ہے جن پر عمل سے نعمت بھی مل جائے گی اور ہدایت بھی حاصل ہوجائے گی۔
ابو جون رضا