الحاد کی صدی اور ملاؤں کی بے خبری

تیرہ سال پہلے میں پوری قوت سے شیعوں میں موجود غالیوں کے خلاف کھڑا ہوا تھا۔ اس وقت میری کمیونٹی کے لوگ مجھے برا سمجھتے تھے۔ ان کے خیال میں ، کسی گمراہ انسان کے بہکاوے میں آکر میں اپنی ہی کمیونٹی کے خلاف ہوگیا ہوں۔ میں موبائل میسجز کے زریعے پیغامات ارسال کرتا تھا، فیس بک پر پوسٹ لکھا کرتا تھا، دوستوں کے ساتھ مل کر ایک پلیٹ فارم تشکیل دیا تھا جہاں اصل اسلام کا چہرہ دکھانے کی کوشش ہوتی تھی ۔ کچھ وقت گزرا ، جب ٹیکنالوجی نے گھروں کے معاملات تک دنیا کے سامنے آشکار کرنے شروع کیے تو مجالس میں منبر سے نشر ہونے والی خرافات، جلسوں میں ہونے والی حرکتیں طشت از بام ہوگئیں۔ پھر شیعہ علماء نے خود توہین رسالت کی ایف آئی آر اپنی ہی کمیونٹی کے زاکروں کے خلاف کٹوائیں، ان کے خلاف تقریریں کیں۔

میں نے اس وقت لوگوں سے کہا کہ آج جن باتوں کو دیکھ کر شور مچایا جارہا ہے، کیا یہی باتیں میں نہیں کہتا تھا؟ کیا ضروری ہے کہ میرے سر پر عمامہ ہو ، تب میری بات میں وزن آئے گا؟ اس قدر کس کر تقلید کا پٹا گلے میں کیوں ڈالا ہوا ہے کہ کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا؟

پانچ سال پہلے ایک محفل میں ، الحاد پر میں نے گفتگو کی تھی ۔ میں نے حاضرین کو بتایا کہ اب جن پرانی رسومات کو آپ ہر سال لیکر پیٹتے ہیں، اب وہ دور ختم ہورہا ہے، اب الحاد کی صدی ہے، خدا کا انکار، رسول کا انکار، انبیاء کا مضحکہ اڑانا، یہ سب آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہے۔ کچھ عرصے میں یہ سب کھل کر ہوگا اور کوئی کچھ کرنے کے قابل نہیں ہوگا۔

مجھے یاد ہے کہ اس محفل میں ایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ آپ کچھ زیادہ سوچ رہے ہیں، ہمارے بچے مجلس ماتم عزاداری کرنے والے ہیں، ان کو یہ الحاد کیا نقصان پہنچائے گا، اہلسنت فکر کریں کیونکہ ان کی کوئی اساس ہی نہیں ہے۔

میں خاموش ہوگیا۔

آج اہل تشیع میں دو گروہ ہوگئے ہیں، ایک وہ ہیں جن کی دینی فکر بس واجبی سی ہے، ان کو راتوں کو شور مچانے، منقبت کی محفلوں اور مجلس ماتم کے علاؤہ کوئی کام نہیں ہے۔ ان کے لیے یہ سب انٹرٹینمنٹ ہے۔ انہوں نے اپنے اجداد کو یہی سب کچھ کرتے پایا ہے۔

دوسری طرف وہ لوگ ہیں جن کے سامنے جب ان کی کمیونٹی کی اوٹ پٹانگ حرکتیں آتی ہیں تو وہ مذہب بیزار ہوجاتے ہیں۔ ان کو پتا ہے کہ بیس پچیس مقدس لوگوں کے گرد ان کی کمیونٹی کا مذہب گھوم رہا ہے۔

فلاں پیدا ہوگیا، فلاں شہید ہوگیا، فلاں کی نذر ہوگی، فلاں کا جلوس نکلے گا۔ یہ بس مابعد الطبیعیاتی باتیں ہیں جن کا کوئی تاریخی یا سائنسی ثبوت نہیں ہے۔ وہ سوال اٹھاتے ہیں اور ان کو جواب نہیں ملتا۔ نتیجہ میں وہ الحاد کی راہ اختیار کرتے ہیں۔

جب تک کسی پسماندہ ملک میں رہ رہے ہیں تب تک ہونٹ سی کر رکھتے ہیں، بس نجی محفلوں میں یا دوستوں میں اپنے عقائد کا اظہار کرتے ہیں. میرے کتنے جاننے والے ہیں جو کہتے ہیں کہ اماں ابا کے ڈر سے سال کے سال رسمیں ادا کرتے ہیں، اندر سے ان باتوں سے نفرت کرتے ہیں۔

اس طرح کے لوگ جیسے ہی کسی آزاد ملک پہنچتے ہیں، مذہب کو اٹھا کر گھر سے باہر پھینک دیتے ہیں۔

لیکن اس کے مقابل میں شیعہ علماء کو دیکھیے۔

وہ ان مرغیوں کی طرح سر جھکا کر دانہ چگنے میں لگے ہیں جن کو گرد و پیش کی کوئی خبر نہیں ہوتی۔ ان کے بچے ایک ایک کرکے باز اٹھا کر لے جارہا ہے۔ مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے ۔

کس بوتے پر یہ اہلبیت کے در سے جڑے ہونے کا دعوی کرتے ہیں جب ان کی محافل میں سوائے قصہ کہانیوں یا حکومت اور اہلسنت پر طعن و تشنیع کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا؟

امریکا میں مقیم مبشر زیدی صاحب نے اس رمضان قران کی ایکٹو ریڈنگ کرکے روزانہ اعتراضات کی شکل میں پوسٹ لگانی شروع کی ہیں۔ ان کی پوسٹ کے نیچے میں دیکھتا ہوں کہ سب سے زیادہ مسلمانوں کے بچے داد دے رہے ہوتے ہیں، یا مذہب کا مضحکہ اڑانے میں لگے ہوتے ہیں

اہلسنت کے عالم جناب طفیل ہاشمی، مبشر صاحب کی پوسٹ کا جواب لکھ رہے ہیں، شیعہ علماء تو اتنی سکت ہی نہیں رکھتے کہ اس میدان میں ریفری کے فرائض ہی انجام دے لیں۔ ان کو رمضان میں مجالس کے کنڑیکٹ پکڑنے سے فرصت نہیں ہوگی ، وہ کیا توجہ کریں گے کہ دنیا کہاں جارہی ہے۔

یہ شاید اس وقت جاگیں جب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا ہو۔

یہ ایک چھوٹی سی مثال میں نے دی ہے۔ اس وقت نہ جانے کتنے لوگ ایکٹو ہیں جن کا یہ مشن ہے کہ لوگوں کو مذہب سے دور کردیں۔

اس وقت شیعہ کمیونٹی کی مجالس خود الحاد کو پروموٹ کرنے کا سب سے بڑا زریعہ ہیں۔ منبر سے ملاؤں کی واہیات جادوئی باتیں کلپس کی شکل میں باہر آتی ہیں جن کو دیکھ کر دنیا مذاق اڑاتی ہے اور نوجوان طبقہ ان سے متنفر ہوتا ہے۔

اگر آپ اپنی آنے والی نسلوں کو الحاد سے بچانا چاہتے ہیں تو ان علماء کو جھنجھوڑیے ، مجالس کے ٹاپک تبدیل کروائیے ، سوال جواب کے سیشن رکھوائیے یا پھر آخری آپشن کے طور پر اپنی اولادوں کو ان مجالس میں جانے سے روکیے۔

ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں،

مرضی آپ کی ہے۔

ابو جون رضا

9

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *