اسلامی بینکاری، تاریخ اور ارتقاء

بینک ایک ایسا ادارہ ہے جو آج کے معاشی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔  عصرِ حاضر میں جبکہ دنیا گلوبل ویلیج کی صورت اختیار کر چکی ہے اس ادارہ کے بغیر بڑی بڑی تجارتی منڈیاں چلانا تقریباً ناممکن ہوچکا ہے۔ مغربی بینکوں کے وجود میں آنے کے بعد اہل اسلام نے بھی اس میدان میں کوششیں شروع کیں تاکہ بینکاری سسٹم کو شرعی خطوط پر استوار کیا جائے اور پوری دنیا میں کمرشل اور سودی بینکوں کے مقابلے میں اسلامی بینک بنائے جائیں۔ اس سسٹم کے قیام کے لئے متعدد پلیٹ فارموں سے کاوشیں کی گئیں،  جن کی تفصیل کچھ یوں ہے۔

اسلامی نظام بینکاری کی تاریخ کوئی ساٹھ ستر دہائیوں پر محیط ہے جس کا آغاز 1963 میں مصر سے میت غمر نام کے اسلامک بینک کے قیام کی صورت میں ہوا تھا۔ اس سے قبل اس حوالے سے چند کاوشیں اور تجربے جنوبی ہند کی مسلم ریاست حیدرآباد میں بھی ہوچکے تھے۔ حیدرآباد دکن کے اس تجربے کے بعد 1960 سے 1965 کے درمیان،  اس طرح کی ایک ہلکی سی کاوش پاکستان میں بھی ہوئی، جس میں شیخ احمد ارشاد صاحب نے کلیدی کردار ادا کیا۔ انہوں نے دی کواپریٹو انویسٹمنٹ اینڈ فنانس کارپوریشن لمیٹڈ کے نام سے ایک غیر سودی بنک کی بنیاد رکھی جس کی افتتاحی تقریب میں علماء شریک ہوئے اور اس کوشش کو بہت سراہا۔ 

غیر سودی بینکاری ، مفتی محمد تقی عثمانی ، ص 31-32

عراق میں انیس سو ساٹھ میں آیت اللہ باقر الصدر نے پہلی بار اقتصادیات پر ایک جامع کام کیا۔ آپ نے اقتصادنا اور البنک الربوی فی السلام جیسی معرکتہ آلاراء کتابیں لکھیں جو آج بھی اسلامی معاشیات کے طالب علموں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ 1969 میں ملائیشیا میں تبونگ حاجی “حجاج کا انتظامی فنڈ اور بورڈ”  کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا جس کا کام حجاج کرام کو مالیاتی سہولیات فراہم کرنا تھا۔

بالعموم یہ تصور پایا جاتا ہے کہ مصر کے میت غمر اور ملائیشیا کے تبونگ حاجی بورڈ اسلامی بینکاری کی عملی صورت تھی ،مگر اسلامی بینکاری کے قیام کی اولین عملی اور تطبیقی صورتوں میں اگر ان دو اداروں کا جائزہ لیا جائے تو انہیں اسلامی بینکاری کی ایک ابتدائی نامکمل صورت کہا جا سکتا ہے , کیونکہ یہ دونوں ادارے انتہائی محدود مقاصد کیلئے قائم کئے گئے تھے۔  میت غمر پراجیکٹ کا دائرہ عمل دیہی کاشتکاروں اور ملائیشیا کے تبونگ حاجی کے پیش نظر حاجیوں کو مالیاتی سہولیات فراہم کرنا تھا، جو مکمل بینکاری نہیں بلکہ اس کی ابتدائی شکل ہے۔1971 میں مصری وزارت خزانہ نے ناصر سوشل بینک کے نام سے ایک بینک قائم کیا۔ یہ ایک باقاعدہ طور پر سرکاری بینک تھا جو سرکاری وسائل سے وجود میں آیا تھا ۔ اس کے بعد 1975
میں پرنس محمد الفیصل کی کاوشوں سے اسلامی ترقیاتی بینک (Islamic Development Bank) قائم ہوا۔ 1975میں ہی دبئی اسلامی بینک قائم ہوا۔ دبئی اسلامی بینک کے بعد جس ادارے نے اس میدان میں نمایاں کردار ادا کیا وہ کویت فنانس ہاؤس کے نام سے 1977 میں وجود میں آیا۔

اسلامی بینکاری کے ماہرین نے 70 کے عشرہ کو اسلامی بینکاری کے جنم لینے کے عشرہ سے تعبیر کیا ہے معروف ماہر معیشت ڈاکٹر محمود احمد غازی فرماتے ہیں

”ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سنہ 70 کا عشرہ اسلامی بینکاری کے جنم لینے کا عشرہ ہے ۔ اس عشرے میں دبئی ، سوڈان ، مصر ، کویت ، اور بحرین میں متعدد اسلامی بینک وجود میں آئے ۔ ان ممالک میں ان بینکوں کو بعض مراعات بھی دی گئیں ۔ بعض ممالک میں ان بینکوں کو قواعد اور احکام کے مطابق بعض قوانین سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ”

محاضرات معیشت و تجارت، ص 376

1963 میں ڈاکٹر احمد نجار کی کاوشوں اور محنتوں سے مصر کی سرزمین پر اسلامی بینکوں کے قیام کا اولین تجربہ سامنے آیا جو شرعی مضاربہ پر قائم تھا۔

اسلامی حکومتوں نے اس نظام کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے اس پر توجہ دی۔ اس طرح رفتہ رفتہ یہ کام بڑے پیمانے پر ہونے لگا ۔ جس کے نتیجے میں دو اہم بینک وجود میں آئے۔

1975(1) میں سعودی عرب کے شہر جدہ میں اسلامی ترقیاتی بینک کا قیام۔

1977(2) میں مکۃ المکرمہ میں اسلامی بینکوں کی بین الاقوامی یونین کا قیام عمل میں آیا۔

بین الاقوامی نوعیت کے اقدامات

یہ مرحلہ اپنی نوعیت اور ماہیت کے اعتبار سے انتہائی اہم مرحلہ ہے کہ جب عالم اسلام کی دیرینہ خواہش تخیلات وتصورات سے نکل کر صفحہ عمل پر منتقل ہوئی اور پوری دنیا کے مختلف ممالک میں اسلامی بینکوں کی برانچز قائم کردی گئیں ۔ جن میں سے چند ایک درجِ ذیل ہیں۔

♦ دبئی اسلامک بینک : جس کا قیام 1975ء ، میں متحدہ عرب امارات میں عمل میں آیا ۔ یہ بینک پہلا مکمل اسلامی بینک ہے ۔

♦ فیصل بینک ( سعودی عرب ) 1977ء

♦کویت فنانس ہاؤس ( کویت ) 1977ء

♦ بحرین اسلامک بینک 1979ء

♦ ابو ظہبی اسلامک بینک 1997ء 

نیز اس کے علاوہ اور بھی بہت سے اسلامی بینک وجود میں آئے اور عالم اسلام میں بالخصوص اور اقوام عالم میں بالعموم اپنا لوہا منوایا۔

ایران میں 1979 میں اسلامی انقلاب آیا جس کے بعد ایک آرڈینینس کے تحت حکومت اسلامی نے اپنے معاشی نظام کو اسلامی خطوط سے ہم آہنگ کیا۔

پاکستان میں اسلامی بینکاری کی شروعات

پاکستان میں اسلامی بینکاری کا سفر 1960 کی دہائی میں نظریاتی طور پر شروع ہوا اور 1980 کی دہائی میں عملی کوششیں ہوئیں۔

پاکستان میں اسلامی بینکاری کی شروعات اور ارتقاء (1960 سے اب تک)

پاکستان میں اسلامی بینکاری کا آغاز نظریۂ پاکستان اور اسلامی معاشی اصولوں کی بنیاد پر ہوا۔ اس کا مقصد سود سے پاک بینکاری نظام متعارف کروانا تھا جو اسلامی تعلیمات کے مطابق ہو۔

1. ابتدائی کوششیں (1960 – 1979)

1.1 پہلا تصور (1960 کی دہائی)

1960 کی دہائی میں اسلامی معیشت پر تحقیق کا آغاز ہوا۔ کچھ اسلامی اسکالرز نے بغیر سود کے بینکاری کے متبادل ماڈلز تجویز کیے، تاہم اس وقت کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔

2. اسلامی بینکاری کا باضابطہ آغاز (1979 – 1988)

2.1 جنرل ضیاء الحق کا اسلامی معاشی اصلاحات پروگرام (1979 – 1985)

1979 میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے اسلامی معیشت کے نفاذ کی کوششیں کیں، جن میں اسلامی بینکاری بھی شامل تھی۔ انہوں نے اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیل نو کی جس میں مفتی محمد تقی عثمانی رحمہ اللہ اور حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ شامل تھے۔ اس کے بالکل ابتدائی اجلاسات میں ہی کونسل کے کام کا جو نقشہ تیار کیا گیا، اس میں غیر سودی بینکاری کی مفصل تجویز دینا شامل تھا۔ ان کوششوں کے نتیجے میں حکومت پاکستان نے جون 1980 میں تمام بینکوں کو سود سے پاک پروڈکٹس متعارف کرانے کی ہدایت دی۔ جس کے نتیجے میں 1981 میں کچھ بینکوں نے “منافع و نقصان میں شراکت”

Profit & Loss Sharing – PLS

پر مبنی اکاؤنٹس متعارف کروائے۔

3. عملی چیلنجز اور سست روی (1988 – 1999)

3.1 بین الاقوامی دباؤ اور عملی مشکلات

1988 میں ضیاء الحق کی حکومت کے خاتمے کے بعد اسلامی بینکاری پر کام کی رفتار کم ہوگئی۔ حکومتوں کو آئی ایم ایف اور عالمی بینک جیسے اداروں کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا، جو سودی بینکاری کے حامی تھے۔

1991 میں وفاقی شرعی عدالت نے سود کو مکمل طور پر ختم کرنے کا فیصلہ دیا، لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔

3.2 سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ (1999)

1999 میں سپریم کورٹ نے سود کے خاتمے کے فیصلے کی توثیق کی اور حکومت کو اسلامی بینکاری کے عملی اقدامات کرنے کا کہا۔

4. جدید اسلامی بینکاری کا آغاز (2000 – 2010)

4.1 اسلامی بینکاری کا باضابطہ نفاذ

2001 میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اسلامی بینکاری کو فروغ دینے کے لیے باضابطہ طور پر ایک فریم ورک متعارف کرایا:

2002: پہلا مکمل اسلامی بینک “میزان بینک” قائم ہوا۔

دیگر کمرشل بینکوں کو بھی اسلامی بینکاری ونڈوز کھولنے کی اجازت دی گئی۔

4.2 اہم اسلامی بینکوں کا قیام

2002: میزان بینک

2003: البرکہ بینک

2005: بینک اسلامی

2006: دبئی اسلامی بینک پاکستان

2007: ایم سی بی اسلامک بینک

4.3 شریعت ایڈوائزری بورڈ کا قیام

اسلامی بینکاری کے معیارات کو یقینی بنانے کے لیے شریعت ایڈوائزری بورڈ بنایا گیا۔

اسٹیٹ بینک نے اسلامی بینکاری کے لیے شریعت گائیڈ لائنز متعارف کروائیں۔

5. اسلامی بینکاری کی تیز رفتار ترقی (2011 – 2024)

5.1 اسلامی بینکاری کی مارکیٹ میں ترقی

2014 میں حکومت نے سکوک بانڈز (اسلامی بانڈز) متعارف کروائے، جس سے اسلامی فنانسنگ میں اضافہ ہوا۔

2018 تک پاکستان میں اسلامی بینکاری کے اثاثے 12 ٹریلین روپے تک پہنچ گئے۔

2022 میں وفاقی شرعی عدالت نے حکومت کو سودی بینکاری کے مکمل خاتمے کے لیے 2027 تک کا وقت دیا۔

5.2 اسلامی بینکاری کی موجودہ صورتحال (2024)

اسلامی بینکاری کے اثاثے پاکستان کے بینکاری شعبے کے 20% سے زائد ہوچکے ہیں۔

5 مکمل اسلامی بینک اور 17 کمرشل بینکوں کی اسلامی ونڈوز کام کر رہی ہیں۔

اسلامی فنانسنگ میں اجارہ، مضاربہ، مشارکہ، مرابحہ، سلم اور استصناع جیسے طریقے استعمال کیے جا رہے ہیں۔

نتیجہ

2001 کے بعد اسلامی بینکاری نے باقاعدہ ترقی کی اور آج پاکستان میں اسلامی بینکاری ایک مستحکم اور تیزی سے بڑھتی ہوئی صنعت بن چکی ہے۔

یہ بینکاری نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر بھی ترقی کر رہی ہے اور مستقبل میں پاکستان میں اسلامی مالیاتی نظام مزید مضبوط ہونے کی توقع ہے۔

ابو جون رضا

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *