شمس الدین شگری صاحب کا پوڈ کاسٹ ، علامہ قبانجی صاحب کے ساتھ (1)

شمس صاحب کا پوڈ کاسٹ عرب عالم کے ساتھ سننے کا اتفاق ہوا۔ قبانجی صاحب روشن فکر عالم ہیں۔ وہ مذہبی فکر کو محدود نہیں سمجھتے۔ ان کے خیال میں جس دور میں انبیاء آئے ، رسول اکرم تشریف لائے، اس دور کے لوگوں کی عقل کے حساب سے انہوں نے گفتگو کی ، ان کی عقل کو مہمیز کیا۔ پرابلم تب آتی ہے جب ہم عقل کو بروئے کار نہیں لاتے، اس کے زریعے سے مسائل کا حل نہیں نکالتے۔

قبانجی صاحب مثال دیتے ہیں کہ سائنس نے ایٹمی ہتھیار بنانا سکھا دیے، اب ان کو کس وقت چلانا ہے، جارحیت کرنی ہے یا دفاع کرنا ہے، یہ فیصلہ عقل نے کرنا ہے۔ سائنس کا اس سے کوئی لینا نہیں ہے۔

اسی طرح سے مذہب نے جس دور میں احکام دیے، وہ اس دور کے حساب سے بہترین حل تھا ۔ عقل انسانی آگے بڑھے گی، معاملات تبدیل ہونگے تو عقل حاکم ہوگی۔ وہ فیصلہ کرے گی کہ اب کیا بہتر ہے۔ اگر مذہب یہ فیصلہ کرتا ہے کہ انسانوں کو غلام بنایا جائے یا ان سے جزیہ لیا جائے تو اب عقل اس چیز کو تسلیم نہیں کرے گی کہ عورتوں کو کنیزیں بنایا جائے۔

قبانجی صاحب کہتے ہیں کہ فقہاء نے یہ کلیہ بنایا ہے کہ “حلال محمد قیامت تک حلال ہے، حرام محمد قیامت تک حرام ہے” ، جبکہ قران و سنت میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔

ہمارے پڑوسی ملک کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ وہ بہت سیکولر، لبرل عقلی لوگ ہیں لیکن جیسے ہی مذہب کی بات آتی ہے ، ہم دیکھتے ہیں کہ وہ سانپ کی پوجا کررہے ہیں، بندروں کو پوجتے ہیں جو غیر عقلی بات ہے، چاہے کوئی مذہب اس کو تسلیم ہی کیوں نہ کرتا ہو۔

(خیال آیا کہ پاکستان میں لوگ گھوڑے، علم کے ڈنڈوں اور قبروں کو پوجتے ہیں، ان کی ساری زندگی قبروں کے گرد گزر جاتی ہے، یہاں تک کہ وہ خود مردہ ہوجاتے ہیں)

قبانجی صاحب قرآن سے ہجرت کی مثال پیش کرتے ہیں۔ قرآن میں کچھ آیات ہیں جن میں ہجرت کا بیان ہوا ہے۔ اس کے بعد مکہ فتح ہوگیا۔ اب ہجرت منجمد ہوگئی ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قیامت تک ہجرت ہوتی رہے گی ۔

(اس سے ایک روایت یاد آئی کہ رسول اکرم حضرت خالد بن ولید کو تنبیہ کرتے ہیں کہ تم میرے صحابی کا خیال کیوں نہیں کرتے ؟ یعنی خود رسول اکرم اصحاب میں تفریق کرتے تھے۔ جو مہاجر تھے وہ مکہ فتح ہونے کے بعد دوبارہ مکہ میں آباد نہیں ہوسکتے تھے۔ ان کو ہجرت کرنے پر مہاجر ٹائٹل ملا تھا جس کی قرآن نے توصیف کی تھی۔ ان کی قربانیاں تھیں، وہ سابقون الاولون تھے، جو بعد میں اسلام لائے، ان سے افضل تھے)

قبانجی صاحب سائنس، فلسفہ اور وحی کا تعلق انسان سے جوڑتے ہیں مگر تینوں کا دائرہ کار مختلف قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تینوں دریا کی مانند ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب سائنس یعنی تجربی علم کی بنیادیں کمزور تھیں ، اس وقت وحی اور انسان کا تعلق تھا، مذہب برتر تھا۔ زمانہ گزرا تجربی علوم نے ترقی کی، اور سائنس برتری حاصل کرنے لگی تو چرچ مذہب کی آڑ لیکر سامنے اگیا۔ اس نے سائنس دانوں کو جلایا، ظلم کیے۔ لیکن پھر سائنسی علوم نے اپنی برتری ثابت کی اور چرچ کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ اسی طرح سے آج علماء کہتے ہیں کہ ہم ہر چیز کو قرآن و سنت سے لیں گے، یہ ظلم ہے جو سائنس اور فلسفہ یعنی عقل پر کیا جارہا ہے۔

مغرب نے سائنس کو ترجیح دی اور کہا کہ ہر شے کا جواب سائنس دے گی، ہم سائنس کے زریعے مسائل کا حل نکال لیں گے، ہمیں مذہب کی ضرورت نہیں ہے۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ سائنس نے ایٹم بم بنا کر دیا اور اس کو ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرا کر فتح حاصل کرلی گئی۔ فتح کڑوڑوں لوگوں کی موت پر منتہج ہوئی۔ یہ ایک اور ظلم انسانیت کے ساتھ کیا گیا.

نطشے نے کہا کہ خدا مرگیا۔ یعنی مذہب کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ پھر مشعل فوکو نے کہا کہ

“خدا مرتا ہے تو انسان بھی مرجاتا ہے”

(جاری)

ابو جون رضا

3

1 thought on “شمس الدین شگری صاحب کا پوڈ کاسٹ ، علامہ قبانجی صاحب کے ساتھ (1)”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *