جنگ بندی برائے امن

میں دفاعی تجزیہ کار نہیں ہوں۔ پہلگام واقعے پر کچھ عرضداشت پیش کی تھیں۔ اس میں چیخوف کا ایک جملہ لکھا تھا کہ اگر پہلے ایکٹ میں بندوق دکھائی جائے تو آخری ایکٹ تک وہ چل جاتی ہے۔ چند ہی دنوں میں دونوں ایٹمی ہتھیار رکھنے والے ملک دست و گریباں تھے۔ اس پر انکل سام کا تبصرہ یہ تھا کہ یہ دونوں ممالک صدیوں سے لڑتے آئے ہیں ، مار پیٹ کرکے خود اپنے مسئلے حل کرلیں گے۔

بھارت بڑا جمہوری ملک ہے، اس کی اکانومی بھی اب جہازی سائز ہوگئی ہے مگر عوام ابھی تک فلمی دور سے باہر نہیں نکلی۔ اس وجہ سے ان کے میڈیا پر ایسا ہسٹریا طاری تھا جیسے جنگ نہ ہوئی بلکہ بچوں کا کھلونا تھا جو کوئی دوسرا بچہ چھین کا بھاگ گیا ہے۔

مشہور صحافی فرید زکریا صاحب نے انڈین میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان معاشی حوالے سے مشکلات کا شکار ہے۔ ان کا ایک مقبول لیڈر اس وقت جیل میں پڑا ہے جس کی وجہ سے فوج کے خلاف ایک نفرت کی فضاء ان کے معاشرے میں موجود ہے۔ مگر جنگ کی وجہ سے فوج اور عوام میں قربت دوبارہ بحال ہوئی ہے۔ اس لحاظ سے بھارت کو اس جنگ کی وجہ سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا۔

جنگ ایسی چیز ہے جس کو کوئی ہوش مند انسان کبھی پسند نہیں کرسکتا۔ یہ تباہی لاتی ہے اور ختم ہوجانے کے باوجود بھی اس سے ہوئے نقصانات کی برسوں تک عوام اپنے ٹیکس کے پیسوں سے بھرپائی کرتے ہیں۔

کلاسیکی جرمن نظم یا کہانی
“The Sorcerer’s Apprentice”
1797 میں معروف جرمن شاعر گوئٹے نے لکھی تھی ۔ اس پر والٹ ڈزنی کی فلم “Fantasia – 1940 میں بنی اور اس میں مکی ماؤس نے کردار ادا کیا تھا، وہ یاد آتی ہے،

کہانی یہ ہے کہ

ایک جادوگر کا شاگرد، جو جادو سیکھ رہا ہوتا ہے، اپنے استاد کو روز جادو کرتے دیکھتا ہے۔ استاد اتفاق سے کہیں باہر جاتا ہے تو شاگرد کو موقع ملتا ہے کہ وہ اپنے سیکھے ہوئے جادو کو آزمائے۔

گھر میں پانی لانے کا کام اسے سونپا گیا ہوتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ کیوں نہ خود یہ کام کرنے کی بجائے جادو کا استعمال کیا جائے۔ وہ ایک جھاڑو (کبھی کبھی کہانی میں بالٹی کہا جاتا ہے) پر جادو کرتا ہے اور اسے حکم دیتا ہے کہ:

“جا، کنویں سے پانی لا اور اسے حوض میں انڈیل”

جھاڑو زندہ ہو جاتی ہے، اور بار بار پانی لا کر حوض میں انڈیلنا شروع کر دیتی ہے۔

شروع میں تو سب ٹھیک چلتا ہے، مگر مسئلہ تب شروع ہوتا ہے جب شاگرد کو یہ یاد نہیں رہتا کہ جادو کو روکنے کا منتر کیا تھا۔

اب جھاڑو بار بار پانی لا رہی ہے، اور حوض ابلنے لگتا ہے۔ پانی باہر گرنے لگتا ہے۔ گھر میں پانی پھیلنے لگتا ہے، پورا گھر تالاب بننے لگتا ہے، شاگرد بے بس ہو کر جھاڑو کو کلہاڑی سے کاٹنے کی کوشش کرتا ہے۔

مگر تب نیا مسئلہ پیدا ہوتا ہے:

کٹے ہوئے ٹکڑے بھی نئی جھاڑوؤں میں بدل جاتے ہیں، اور سب پانی لانا شروع کر دیتی ہیں!

اب صورتحال بے قابو ہو جاتی ہے۔

آخر میں استاد واپس آتا ہے، سب کچھ دیکھ کر فوراً صحیح منتر پڑھتا ہے، اور ساری جھاڑوئیں رک جاتی ہیں۔ بالٹیاں زمین پر گر جاتی ہیں ۔

جادوگر نے نرمی مگر سختی سے اس سے کہتا ہے۔

“طاقت حاصل کرنے سے پہلے عقل حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ورنہ علم بربادی بن جاتا ہے۔”

جنگی جنون ایسی ہی چیز ہے۔ آپ جنگ شروع تو کرسکتے ہیں مگر وہ بند کچھ لے دیکر ہی ہوگی۔ جس کے آخر میں تباہی عوام کی منتظر ہوتی ہے۔

ٹرمپ صاحب نے کہہ تو دیا کہ سیز فائر ہوگیا ہے مگر جب تک دونوں ممالک کے آفیشلز ٹیبل پر آمنے سامنے نہیں بیٹھیں گے تب تک جھڑپیں چلتی رہیں گی۔ بے شمار چینلز دوسرے کے سچ کو جھوٹ اور اپنے جھوٹ کر سچ بتا کر لوگوں کے دلوں کو گرماتے رہیں گے۔

یہاں امریکا کے بیانیے پر سوال بنتا ہے جو پہلے تھپکی دیکر لڑائی کی ترغیب دیتا ہے بعد میں صلح صفائی کروانے آجاتا ہے مگر کشمیر، بلوچستان کے مسائل اور جہادی تنظیمیں ، مذہبی نفرتیں اپنی جگہ موجود رہتی ہیں۔

ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی

نہ سنو گر برا کہے کوئی
نہ کہو گر برا کرے کوئی

روک لو گر غلط چلے کوئی
بخش دو گر خطا کرے کوئی

کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند
کس کی حاجت روا کرے کوئی

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

ابو جون رضا

2

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *