
رسول اکرم کی حدیث مبارکہ ہے۔
مَا بَیْنَ بَیْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَة مِّنْ رِیَاضِ الْجَنَّة”
(رواه البخاري رقم 1196، صحیح مسلم رقم 1391)
”میرے منبر اور میرے گھر کے درمیان والی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے”۔
ریاض الجنہ وہ مبارک جگہ ہے جو نبی اکرم ﷺکے گھر یعنی حجرہ حضرت عائشہ اور منبر کے درمیان میں واقع ہے۔
اس سلسلے میں اہل علم کے کئی اقوال ملتے ہیں۔
(1) اس جگہ پر بیٹھنے کی سعادت و اطمینان جنت کے باغ میں بیٹھ کر حمد و ثناء پروردگار کرنے جیسی ہے۔
(2)اس جگہ پر عبادت کرنا جنت میں دخول کا سبب ہے۔
(3) اس جگہ کو آخرت میں جنت کا حصہ بنا دیا جائیگا۔
اہل تشیع میں بھی یہ روایت الفاظ کے فرق سے موجود ہے۔
محمد عن أحمد عن ابن فضال عن جميل عن الحضرمي عن أبي عبد اللّٰه عليه السّلام قال قال رسول اللّٰه صلّى اللّه عليه و آله :
“ما بين بيتي و منبري روضة من رياض الجنة”
(الوافي Vol. ۱۴, p. ۱۳۵۸)
اس روایت کی سند درست نہیں ہے۔ لیکن ایک اور جگہ انہی الفاظ سے یہ روایت موجود ہے جس کی سند حسن ہے۔
(الکافي Vol. ۴, p. ۵۵۴)
ایک اور روایت بعینہ انہی الفاظ سے حدیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ لیکن اس میں بیتی کی جگہ قبری کا لفظ ہے یعنی میری قبر اور میرے گھر کے درمیان کا حصہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔ یہ اہلسنت کے منابع میں بھی ضعیف سند سے وارد ہے اور اہل تشیع میں بھی اس کی سند صحیح کے درجے پر نہیں ہے۔
قیامت کے بارے میں قرآن کریم خبر دیتے ہوئے بتاتا ہے کہ
یَوۡمَ تُبَدَّلُ الۡاَرۡضُ غَیۡرَ الۡاَرۡضِ وَ السَّمٰوٰتُ وَ بَرَزُوۡا لِلّٰہِ الۡوَاحِدِ الۡقَہَّارِ
یہ (انتقام) اس دن ہو گا جب یہ زمین کسی اور زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی اور سب خدائے واحد و قہار کے سامنے پیش ہوں گے۔
(سورہ ابراہیم آیت 48)
اس خبر کے لحاظ سے زمین کے کسی حصے کا آسمان پر اٹھا لیا جانا بعید از قیاس لگتا ہے، بہتر رائے یہی لگتی ہے کہ ریاض الجنہ والی جگہ پر عبادت کرنے کا بہت زیادہ اجر و ثواب ہے اور انشاللہ جنت میں داخلے کا سبب بنے گا۔
اس حوالے سے دنیا میں پائی جانے والی دوسری مقدس جگہوں کے حوالے سے یہ کانسیپٹ پایا جاتا ہے کہ وہ بھی ریاض الجنہ جیسی فضیلت کی حامل ہیں اور ان کو بھی قیامت سے پہلے آسمان پر اٹھا لیا جائے گا۔ یہ فضول نظریہ ہے جس کی کوئی شرعی دلیل نہیں ہے۔
واللہ اعلم باالصواب
ابو جون رضا