صحیفہ کاملہ امام زین العابدین کی دعاؤں کا مجموعہ یے جس کو علماء نے زبور آل محمد کا نام دیا ہے۔ میں نے 2004 میں صحیفہ کاملہ خریدی تھی۔ اکثر اس کی دعائیں میں نے پڑھیں۔ آج ریک میں رکھی ہوئی اس دعاؤں کی کتاب پر نظر پڑی تو مطالعہ کے لیے اٹھا لی۔
قران کریم خود پر تدبر کی دعوت دیتا یے ۔ یہ تو بہرحال دعاؤں کی ایک کتاب ہے ۔ اس میں کتنی دعاؤں میں بالکل قطیعت کے ساتھ امام زین العابدین کے جملے شامل ہیں، یہ بھی ایک بحث طلب معاملہ ہے۔
میں نے تقدس برطرف کرکے ایک طالب علمانہ نگاہ اس کتاب پر ڈالی ہے۔
میں ہمیشہ اپنی زبان میں دل کا حال خداسے کہنے کو زیادہ پسند کرتا ہوں لیکن کبھی کبھار عربی میں جذب پیدا کرنے والی دعاؤں کی تلاوت میں بھی کوئی حرج نہیں سمجھتا بشرطیکہ ان کا مطلب سمجھ آرہا ہو۔
صحیفہ کاملہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی دعاؤں میں صرف خدا سے لو لگائی گئی ہے۔ اسی کو پکارا گیا ہے اور خود کو خدا کے سامنے عاجز اور بے بس بتایا گیا ہے۔ اگر اہل بیت کے نام لیواء حضرات اس کے مندرجات کا سرسری انداز میں بھی مطالعہ کریں تو دعاؤں اور حاجات طلب کرنے کے لیے پندرہ سو سال پہلے گزرے لوگوں سے مشکل کشائی کی درخواست نہ کریں اور شرک و غلو سے ان کا دامن بچا رہے۔
امام سجاد نے رسول اکرم پر، ان کی آل پر، اصحاب رسول پر اور تابعین پر درود و سلام بھیجا ہے۔ اللہ سے سنتوں پر عمل پیرا ہونے اور بدعات سے بچنے کی توفیق طلب کی ہے۔
ایک خاص بات یہ ہے کہ صحیفہ کاملہ میں شامل دعاؤں میں خدا سے بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں اور ان سے لذت اٹھانے کو طلب نہیں کیا گیا ہے
خدا سے اس طرح دعا کی گئی ہے جیسے وہ روز مرہ کے تمام کاموں میں دخیل ہے ۔ لیکن جب ظالم کے خلاف دعا کی گئی ہے تو یہ سوال کیا گیا ہے کہ اگر اللہ نے اس کا معاملہ قیامت کے لیے اٹھا رکھا ہے تو پھر میرے دل کو سکون اور ہمت دے، کہیں میں مایوس ہوکر شکوہ شکایت نہ کروں۔
جب سرحدوں کے محافظین کے لیے دعا کی گئی ہے تو ایسا لگ رہا ہے کہ مخالفین اور دشمنوں کے خلاف (نعوذباللہ) خدا کو اکسایا جارہا ہے۔ جیسے
“ان کے دشمنوں کے حرںے کند کردے، ان کے ہتھیاروں میں تفرقہ ڈال دے، ان کی کمک کا راستہ منقطع کر، ان کی زبانوں میں گرہ لگادے”
کچھ عجیب جملے لکھے ہوئے ہیں
“ان کی عورتوں کے شکم بانجھ ، ان کے مردوں کے صلب خشک اور ان کے گھوڑوں ، اونٹوں، گائیوں، بکریوں کی نسل کو قطع کردے، اور ان کے آسمان کو برسنے کی اور زمین کو روئیدگی کی اجازت نہ دے”
مردوں نے جو کیا اس کا بدلہ عورتوں اور جانوروں سے لینے کی مجھ حقیر طالب علم کو سمجھ نہیں آئی ۔
اسی طرح سے مسلمانوں کے جو لشکر غیر مسلموں سے برسر پیکار ہیں ان کی فتح و نصرت کی دعا کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ
“صف در صف فرشتوں کے زریعے ان کی امداد فرما تاکہ اس خطہ زمین میں انہیں قتل و اسیر کرتے ہوئے اس کے آخری حدود تک پسپا کردیں یا یہ کہ وہ اقرار کریں کہ تو وہ خدا ہے جس کے سواء کوئی معبود نہیں اور یکتا و لاشریک ہے، خدایا اطراف و جوانب کے دشمن دین کو بھی اس قتل و غارت کی لپیٹ میں لے لے، وہ ہندی ہوں یا رومی، ترکی ہوں یا خزری ، حبشی ہوں یا نوبی، زنگی ہوں یا صقلبی و دیلمی اور نیز ان مشرک جماعتوں کو جن کے نام اور صفات ہمیں معلوم نہیں ہیں اور تو اپنے علم سے ان پر مطلع ہے”
اسی دعا میں آگے چل کر فرماتے ہیں کہ
“ان کی شان و شوکت مٹا دے، ان کے پانی میں وباء اور ان کے کھانوں میں امراض کی آمیزش کردے، ان کے شہروں کو زمین میں دھنسا دے، انہیں ہمیشہ پتھروں کا نشانہ بنا اور قحط سالی ان پر مسلط کردے”
اس دعا کو پڑھ کر دو باتیں آشکار ہوئیں۔ ایک تو یہ کہ اہلبیت کی وقت کے حاکم سے کتنی بھی چپقلش تھی، مگر وہ اس کی دوسرے ممالک پر فوج کشی کے حق میں تھے۔ دوسرا یہ کہ خلفائے راشدین پر لگایا جانے والا الزام کہ اسلام امن کا دین ہے اور ان خلفاء نے غلط طریقے سے دوسرے ممالک پر لشکر کشی کی ، اپنی جڑ سے اکھڑ جاتا ہے کیونکہ اہلبیت کے گھرانے کا ایک عظیم فرد ، مشرک قوم کے خلاف لڑنے والوں کی سلامتی اور فتح و نصرت کی، خدا سے طلب کررہا ہے۔
عید اور جمعہ کے روز کی دعا میں فرماتے ہیں
“بارالہا ! یہ مقام تیرے جانشینوں اور برگزیدہ بندوں کے لیے تھا اور تیرے امانتداروں کا محل تھا اور تو نے اس بلند منصب کے ساتھ انہیں مخصوص کیا تھا، اسے چھین لیا گیا”
ان جملوں کو جمعہ سے جان چھڑانے والے غالی حضرات اکثر نقل کرتے ہوئے پائے گئے کہ امام نماز جمعہ اور عید کی جماعت کو خود سے مخصوص قرار دیتے ہیں اس وجہ سے غیبت کبری میں نماز جمعہ اور عید جائز نہیں ہے۔
لیکن ان جملوں کے فوراً بعد ہی امام فرماتے ہیں
“تو ہی روز ازل سے اس چیز کا مقدر کرنے والا ہے۔ اس مصلحت کی وجہ سے جسے تو ہی بہتر جانتا ہے، بہرحال تیری تقدیر اور تیرے ارادہ و مشیت کی نسبت تجھ پر الزام عائد نہیں ہوسکتا, یہاں تک کہ تیرے برگزیدہ بندے مغلوب و مقہور ہوگئے اور ان کا حق ان کے ہاتھ سے جاتا رہا”
یہاں امام نے حاکم کی سیٹ چھن جانے کو اللہ کی مشیت قرار دیا ہے اور انتہائی افسوس کے باوجود اللہ کے سامنے مجبوری ظاہر کی ہے کہ تجھ پر الزام عائد نہیں ہوسکتا”
ایک دعا جو ادائے شکر میں کوتاہی کے اعتراف کے حوالے سے ہے اس میں فرمایا گیا ہے کہ
“ہر شخص اقرار کرے گا اپنے نفس کی کوتاہی کا اس (اطاعت) کے بجا لانے میں جس کا تو مستحق ہے۔ اگر شیطان انہیں تیری عبادت سے نہ بہکاتا تو پھر کوئی شخص تیری نافرمانی نہ کرتا۔ اگر باطل کو حق کے لباس میں ان کے سامنے پیش نہ کرتا تو تیرے راستہ سے کوئی گمراہ نہ ہوتا”
یہاں ایسا لگتا ہے کہ سارے فساد کی جڑ خدا مخلوق شیطان ہے جس کو کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے ۔ اگر اس کو قابو میں رکھا جاتا تو پھر کوئی انسان گناہ نہ کرتا۔
طلب عفو و رحمت کے لئے دعا میں ارشاد فرماتے ہیں
“اے میرے معبود ! جو بندہ بھی میرے بارے میں ایسے امر کا مرتکب ہو جسے تو نے اس پر حرام کیا تھا اور میری عزت پر حملہ آور ہوا ہو جس سے تو نے انہیں منع کیا تھا، میرا مظلمہ لیکر دنیا سے اٹھ گیا ہو یا حالت حیات میں اس کے ذمہ باقی ہو تو اس نے مجھ پر جو ظلم کیا ہے اسے بخش دے اور میرا جو حق لیکر چلا گیا ہے اسے معاف کردے اور میری نسبت جس امر کا مرتکب ہوا ہے اس پر اسے سرزنش نہ کر اور مجھے آزردہ کرنے کے باعث اسے رسوا نہ کر”
اس دعا کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ امام سجاد نے خود پر ظلم کرنے والے تمام افراد کو معاف کردیا تھا۔ یہ ان کی اعلی ظرفی تھی مگر اب ان کا نام لیکر گلیوں چوباروں اور امام بارگاہوں میں رونے پیٹنے اور ماتم داری کرنے والوں کو اپنے اعمال کا ازسرنو جائزہ لینا چاہیے کہ وہ جس کی مظلومیت کا نام لیکر خود کو پیٹ رہے ہیں اس نے تو خود پر ظلم کرنے والوں کو معاف کردیا تھا؟
موت کی یاد میں ایک دعا کتاب میں موجود ہے جس کے جملے حسرت و یاس پیدا کرتے ہیں ۔ مثلا فرماتے ہیں
“موت کو ہمارا نصب العین قرار دے، اور کسی بھی دن ہمیں اس کی یاد سے غافل نہ ہونے دے”
پھر فرماتے ہیں
“اس حد تک کہ موت ہمارے انس کی منزل ہوجائے جس سے ہم جی لگائیں اور الفت کی جگہ بن جائے جس کے ہم مشتاق ہوں اور ایسی عزیز ہو جس کے قرب کو ہم پسند کریں”
سوال یہ پیدا ہوتا یے کہ جب خدا نے زندگی دے رکھی ہے تو ہم موت سے کیوں جی لگائیں۔ اس دنیا کو جنت کیوں نہ بنائیں؟
ایک دعا استخارہ کے عنوان سے بھی صحیفہ سجادیہ میں موجود ہے جس کو پڑھ کر سمجھ آتا ہے کہ امام کا مقصود صرف یہ ہے کہ کسی کام میں تردد ہو تو اللہ سے درست فیصلہ لینے میں مدد طلب کی جائے۔
لیکن مترجم صاحب نے حاشیہ لگا کر تسبیح والا استخارہ درج کیا ہے جس میں اتنے دانے بچیں تو یہ خدا کی “ہاں” سمجھو، اتنے بچیں تو خدا کی “ناں” سمجھو جیسی باتیں لکھی ہیں۔
اگر اس طرح کے استخاروں سے کچھ ہوتا تو شیعوں میں خاص کر شادیاں ناکام نہ ہوتیں اور دنیا کا کاروبار استخاروں کی مدد سے چلتا۔
حضرت آدم پر درود سلام کے حوالے سے ایک دعا صحیفہ میں موجود ہے جس میں امام سجاد نے انہیں خاک سے پیدا ہونے والوں میں ربوبیت کے پہلے معترف اور بندوں اور مخلوقات پر اللہ کی پہلی حجت کہا ہے۔
ان جملوں کی وجہ سے مترجم کے عقیدے پر دوبارہ کاری ضرب لگی ہے ۔ حاشیہ لگا کر لکھا ہے کہ اللہ کی ربوبیت و خالقیت کے اول معترف وہ تھے جو اولین مخلوق تھے اور اس وقت جبکہ آدم کی بنیاد بھی نہ رکھی گئی تھی۔
مترجم کا بس نہیں چلا کہ وہ ماضی میں جاکر امام کے منہ میں اپنے الفاظ ڈال دے اور ان کو تنبیہ کرے کہ آپ کی وجہ سے مستقبل میں ہمیں کتنی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا، کتنے حاشیے لگانے پڑیں گے اور کس قدر ترجمے میں رد و بدل کرنا پڑے گا، ابھی اس کا آپ کو اندازہ نہیں ہے۔ تعجب ہے کہ آپ سب سے پہلے پیدا ہوئے اور آپ ہی آدم کو اللہ کی پہلی مخلوق قرار دے رہے ہیں؟
تذلل اور عاجزی کے سلسلے کی دعا میں آپ خدا کی بارگاہ میں فرماتے ہیں کہ
“اے میرے مالک ! جب دنیا سے میرا نام و نشان مٹ جائے اور لوگوں سے میری یاد محو ہو جائے اور ان لوگوں کی طرح، جنہیں بھلا دیا جاتا ہے، میں بھی بھلا دیئے جانے والوں میں سے ہوجاؤں تو مجھ پر رحم فرمانا۔ اے میرے مالک ! میری صورت و حالت کے بدل جانے کے وقت جب میرا جسم کہنہ، اعضاء درہم برہم اور جوڑوبند الگ الگ ہو جائیں تو مجھ پر ترس کھانا”
اس پر مترجم صاحب بہت جزبز ہوئے ہیں۔ انہوں نے حاشیہ لگا کر لکھا کہ امام نے عام فرد کی حیثیت سے خود کو پیش کیا ہے اور انہی چیزوں کو پیش کیا ہے جو عام افراد کو پیش آتی ہیں اس لیے حضرت کا یہ ارشاد کہ “جب میرا جسم کہنہ، اعضاء درہم برہم اور جوڑ و بند الگ الگ ہو جائیں”، ایک عمومی حالت کا بیان ہے.
یعنی مترجم صاحب یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ امام کو پتا تھا کہ ان کا جسم صحیح سالم رہے گا مگر انہوں نے پھر بھی عام لوگوں کی طرح عاجزی دکھائی۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امام کو اپنے جسم کی کوئی فکر نہ تھی، بس انہوں نے عام لوگوں کو دعا سکھانی تھی اس وجہ سے یہ جملے کہے ۔اگر یہ بات سچ ہے تو اللہ نے اس دعا کو کس انداز سے دیکھا ہوگا، وہی بہتر جانتا ہے۔
ایک جگہ فرماتے ہیں کہ پروردگار تو نے ہمیں کمزور و سست پیدا کیا، پانی کے ایک حقیر قطرے سے خلق کیا۔ ہمارے پاس جو بھی قوت ہے وہ تیری عطا کردہ ہے۔
اس کو پڑھ کر قران کریم کی آیت یاد آئی ۔
“اللہ ہی تو ہے جس نے ضعف کی حالت میں تمہاری پیدائش کی ابتدا کی، پھر اس ضعف کے بعد تمہیں قوت بخشی، پھر اس قوت کے بعد تمہیں ضعیف اور بوڑھا کر دیا وہ جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ سب کچھ جاننے والا، ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے”
(سورہ روم آیت 54)
شکر ہے کہ دعا کے نیچے مترجم نے حاشیہ نہیں لگایا کہ اس طرح تو عام لوگ پیدا ہوتے ہیں ، امام کا تو ظہور ہوتا ہے۔
آپ نے نام لیکر اللہ کے مقرب فرشتوں پر بھی درود و سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ تیرے ان فرشتوں پر بھی سلام جن کے نام ہم نہیں جانتے۔
آپ نے مخلوقات کی طرف حاجت روائی کے لیے دیکھنے کی مطلق نفی کی ہے۔ اور صرف اللہ کو حاجت روا تسلیم کیا ہے۔
آپ فرماتے ہیں
“میرے نفس نے مجھے یہ بات خوش نما ضورت میں دکھائی کہ اپنی حاجت کو اس کے سامنے پیش کروں جو خود اپنی حاجتیں تیرے سامنے پیش کرتا یے اور اپنے مقاصد میں تجھ سے بے نیاز نہیں ہے۔ یہ سراسر خطاکاروں کی خطاؤں میں سے ایک خطا اور گنہگاروں کی لغرشوں میں سے ایک لغرش تھی”
آپ نے دشنام گوئی اور بدزبانی سے پناہ طلب کی ہے۔
آپ نے والدین کے حق میں ایک طویل دعا کی ہے۔ جس کے آخر میں یہ بہترین جملے ارشاد فرمائے ہیں کہ
“بارالہا اگر تو نے میرے والدین کو مجھ سے پہلے بخش دیا تو ان کو میرا شفیع بنا اور اگر مجھے پہلے بخش دیا تو مجھے ان کا شفیع قرار دے”
آپ نے اولاد کے حق میں بھی دعا کی ہے اور خدا سے ان کے بازو قوی ہونے اور ان کے وسیلے سے حاجات پوری ہونے میں مدد مانگی ہے۔
دعا ہے پروردگار اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور امام زین العابدین کی طرح ، شکر بجا لانے اور شرک سے دور رہنے کی توفیق عنایت فرمائے۔
وما توفیقی اللہ باللہ علیہ توکلت و الیہ انیب
ابو جون رضا