چین میں ایک عام خیال ہے کہ اس دنیا میں ہر شخص کو خوشی اور غمی کا ایک خاص حصہ ملتا ہے۔ اگر ان میں کسی حصے کی زیادتی ہوجائے تو دوسرے حصے میں کمی کر دی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص کسی خاص چیز سے زیادہ لطف اٹھائے تو اس کے دوسرے حصے مثلا عمر میں کمی کر دی جاتی ہے
برسوں پہلے طاہر جاوید مغل صاحب کا ناول “تاوان” پڑھا تھا۔ وہ اردو میں ایک کلاسیک یے۔ میں نے اس کے بعد سے ناول پڑھنا بند کردیے اور پڑھے بھی تو سرسری طور پر پڑھ کر رکھ دیے کہ تاوان کے بعد اب فکشن میں پڑھنے کو کچھ بچا نہیں ہے۔
تاوان کے ہیرو شاہجہاں کی ملاقات کسی مشن پر ایک غیر معمولی شخصیت سے ہوتی ہے جس نے اپنی ایک الگ چھوٹی سی دنیا بنا رکھی ہوتی ہے۔ اس شخص کا فلسفہ یہ تھا کہ انسان کو اس دنیا میں خوشی و غمی دونوں برابر مقدار میں ملتی ہیں۔ اور کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی ایک مقدار میں دوسری سے زیادہ ہوجائے۔
میں اس فلسفہ سے بہت متاثر ہوا تھا۔
خوشی کسے کہتے ہیں؟
کسی کو موویز دیکھنے سے خوشی ملتی ہے ، کسی کو گھومنے پھرنے سے تو کسی کو اچھا کھانا کھانے سے خوشی کا احساس ہوتا ہے۔
لوگ مادی اور روحانی خوشی کو علیحدہ کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایک پارک میں کچھ بوڑھے افراد بیٹھے کسی بات پر قہقہے لگا رہے ہیں اور وہیں ایک بچہ تتلی کے پیچھے بھاگ رہا یے۔ قریب ہی کچھ خواتین واک کرتے ہوئے گفتگو میں مشغول ہیں۔ ان میں مادی اور روحانی خوشی کو کیسے علیحدہ کیا جائے گا؟
باطنی اور روحانی خوشی کی بات زیادہ تر مذہبی افراد کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں انسان کو اصل خوشی جنت میں ملے گی جو دنیاوی خوشیوں کی بنسبت پائدار ہوگی ۔ بعض لوگوں کے خیال میں ان باتوں نے اصل میں نکمے لوگوں کو خوشی دی ہے جو کامیاب افراد کو دیکھ کر سوچتے ہیں کہ یہ لوگ دنیا میں کتنے ہی کامیاب کیوں نہ ہوں ، آخرت تو بالآخر ہماری ہی ہوگی۔
اس بات سے مجھے ایک شاعر کا مقولہ یاد آیا کہ وہ کہتا ہے
” جو کچھ میں ہوں اور جس طرح ہوں، ٹھیک ہوں “
ابو جون رضا