ایک بڑے مقبول فنکار کا انتقال

یوسف صاحب عرف دلیپ کمار کی موت کی خبر آج صبح سنی۔ انڈیا کی فلمی تاریخ میں وہ ایک لیجنڈ کی طرح تھے جن کی اداکاری سے امیتابھ بچن جیسے اداکار متاثر تھے اور ان کا کہنا تھا کہ وہ چاہ کر بھی دلیپ صاحب جیسی اداکاری نہیں کرسکتے۔

سینما کا ایک عہد ختم ہوا۔ ان کا جنازہ اسپتال سے گھر لے جایا گیا۔ بڑے بڑے اداکار تعزیت کے لیے ان کے گھر وارد ہورہے تھے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔

ایک وڈیو نظر سے گزری۔ جس میں دلیپ صاحب کے گھر کا اندرونی منظر دکھایا گیا ہے۔ ایک مردہ جس کے چہرے پر بڑھاپے اور کمزوری کے آثار ہیں وہ زمین پر پڑا ہے۔ اس کے گرد اس کے گھر والے بیٹھے ہیں۔ مہمان ہاتھ جوڑ کر گھر والوں سے تعزیت اور سلام پیش کر رہے ہیں۔ جوابا گھر والے بھی ہاتھ جوڑ کر جواب دے رہے ہیں۔ کچھ لوگ تصویریں کھینچ رہے ہیں اور موویز بنا رہے ہیں۔ ایک کونے میں چار داڑھی والے افراد بیٹھے ہل ہل کر مذہبی صحیفہ پڑھ رہے ہیں۔

پڑھنے والوں کو کوئی دلچسپی معلوم ہوتی ہے اور نہ گھر والے کو کوئی فکر ہے۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی مسجد سے کچھ لوگوں کو بلوالیا گیا ہے جو پیسے لیکر قرات کر رہے ہیں۔ ان کی توجہ صحیفہ پر ہے نہ گھر والے اس طرف متوجہ ہیں۔شاید وہ یہ قرآت کر کے کھانا کھائیں گے اور پھر ان کو پیسے دے کر رخصت کردیا جائے گا۔

جس کتاب کی زندگی میں کوئی حیثیت نہ ہو وہ مرنے کے بعد اگر دنیا دکھاوے کے لیے دوسروں کے ہاتھوں اٹھوائی گئی ہو تو اس کا فائدہ پڑھنے والوں کو شاید کچھ ہو، مگر مرنے والے اور اس کے اردگرد کھڑے لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

یہ سب تصویریں لینے والے بھول گئے کہ آج جو مردہ زمین پر بے حس و حرکت پڑا ہے۔ کل یہ سب بھی اسی طرح پڑے ہونگے۔ اگر اس مستقبل کی ایک جھلک ان لوگوں کو دکھائی جائے تو ان کا سب نشہ ہرن ہوجائے۔

ایک مثال دی جاتی ہے کہ بہت سارے چوزے کسی جگہ دانہ چگنے میں مصروف ہیں۔ چیل آتی ہے اور ایک ایک کر کے چوزے لیکر جاتی رہتی ہے۔ چوزے کچھ سیکنڈ کو دانے سے سر اٹھاتے ہیں اور پھر دانے کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔ ان کو فکر ہی نہیں کہ موت ان کی تاک میں ہے اور کسی بھی وقت دبے قدموں آئے گی اور ان کو جھپٹ لے گی۔

خدا کے مقرر کردہ فرشتے دن اور رات یہی کام کرتے ہیں۔ جس کی قضا آتی ہے۔ اس کو لیٹے ، بیٹھے، کھڑے ، سوتے جاگتے غرض وہ جیسے بھی حال میں ہو اس کو دبوچ لیتے ہیں اور پلک جھپکتے میں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔

شخصیت نکل جانے کے بعد ایک بے جان جسم باقی رہ جاتا ہے جو خاموشی کی زبان سے کہہ رہا ہوتا ہے کہ جو وقت مجھ پر آیا ہے۔ وہ ایک دن تم پر بھی آئے گا۔

کیا تم تیار ہو؟

”بے شک اللہ کی طرف سے جب مقررہ وقت آ جائے، تو وہ ٹلتا نہیں ہے‘‘

(سورہ نوح:04)

موت کو سمجھے ہے غافل اختتام زندگی
ہے یہ شام زندگی ، صبح دوام زندگی

ابو جون رضا

www.abujoanraza.com

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *