لغت میں کسی چیز کو اپنے اوپر واجب کرنے کو نذر کہا جاتا ہے ۔ اور فقہی اصطلاح میں نذر یہ ہے کہ انسان خدا کیلئے کسی نیک کام کو انجام دینے یا کسی برے کام کو ترک کرنے کو اپنے اوپر واجب کرے۔ مثال کے طور پر نذر یہ ہے کہ انسان ان الفاظ میں صیغہ پڑھے کہ “میں نذر کرتا ہوں کہ اگر میری بیماری ٹھیک ہو جائے تو میں اپنے اوپر واجب کرتا ہوں کہ خدا کیلئے ایک ہزار روپے کسی فقیر کو دوں گا”
شریعت کی نظر میں نذر اس وقت واجب العمل ہو گی جب انسان اس کا صیغہ عربی یا کسی اور زبان میں ادا کرے۔ اگر زبان سے نہ دہرائے اور صرف نیت رکھے تو نذر کا پورا کرنا واجب نہیں ہوگا لیکن اگر پورا کرتا یے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
عبیداللہ بن علی حلبی، امام جعفر صادق سے نقل کرتے ہیں کہ امام نے اس شخص کے بارے میں جو متعلق نذر کو معین کئے بغیر کوئی نذر کرتا ہے، فرمایا:
“اگر متعلق نذر کو معين کیا ہو تو وہی معین ہے لیکن اگر معین نہیں کیا ہے تو اس پر کوئی چیز واجب نہیں ہے”
(منابع فقہ شيعہ، جلد:٢۴، ص٨۶٣)
نذر کا ذکر ہمیں اسلامی تاریخ میں نظر آتا ہے۔ قرآن کریم میں حضرت عمران کی بیوی یعنی حضرت مریم(س) کی والدہ کی نذر کا قصہ بیان ہوا ہے کہ
إِذْ قَالَتِ امْرَأَتُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّي ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
“اس وقت کو یاد کرو جب عمران کی زوجہ نے کہا کہ پروردگار میں نے اپنے شکم کے بّچے کو تیرے گھر کی خدمت کے لئے نذر کردیا ہے اب تو قبول فرمالے کہ تو ہر ایک کی سننے والا اور نیتوں کا جاننے والا ہے”
(سورہ آل عمران، آیت 35)
غور فرمائیے کہ نذر حقیقت میں خدا کے ساتھ عہد و پیمان ہے۔ تا کہ بندے کی طرف سے اپنے اوپر واجب کرنے والے نیک کام کے انجام دینے کی نیت و ارادے کی بناء پر خداوندعالم اپنے بندے کی حاجت کو روا فرماتا ہے۔
ہمارے یہاں نذر و نیاز کی ایک اور شکل رائج ہے۔ وہ یہ کہ کھانا سامنے رکھ کر یا مٹھائی سامنے رکھ کر دو چار سورتوں کی تلاوت کی جاتی ہے پھر اس کا ثواب کسی نبی، ائمہ، یا ولی خدا کو ہدیہ کیا جاتا ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ اس سے رزق میں برکت پیدا ہوتی ہے۔ مقدس ہستیاں خوش ہوتی ہیں اور پھر وہ مٹھائی یا کھانا یا تو خود کھا لیا جاتا ہے یا پھر اقرباء کو مدعو کر کے کھلایا جاتا ہے۔
کھانا کھلانا ایک بہت احسن عمل ہے لیکن نذر دینے کا یہ طریقہ خود رسول اکرم یا ان کے اہل بیت سے ثابت نہیں ہے۔ ہمیں مستند روایات میں یہ نہیں ملتا کہ رسول اکرم یا ائمہ لوگوں کو ترغیب دیتے ہوں کہ ہماری یا پچھلے انبیاء کی نذر دو یا ان کے گھروں میں ہر جمعرات کو یا کسی مقدس ہستی کی پیدائش اور وفات پر کھانا یا حلوہ سامنے رکھ کر قران کی سورتوں کی تلاوت کی جاتی ہو۔ اگر یہ عمل شریعت کی نگاہ میں اتنا پسندیدہ ہوتا جتنا آج کل سمجھا جاتا ہے تو اس کا ثبوت ہمیں نبی کریم کی سیرت میں ضرور ملتا۔ اس کے برخلاف روزے رکھنے کی نذر کا زکر ہمیں ملتا ہے جو قصد قربت اللہ ہے۔ جس میں کسی غیر کا دخل نہیں۔
اگر کوئی شخص یہ نیت کرے کہ میرا فلاں کام ہوجائے یا میں بیماری سے شفا پاجاوں تو فلاں مقدس ہستی کے لیے روزہ رکھوں گا یا فلاں مقدس ہستی کے لئے نماز پڑھوں گا تو یہ نذر ہی باطل ہے۔
قران کریم ہمیں تدبر کی دعوت دیتا ہے۔ یہ زندوں کے لئے آیا ہے نہ کہ مردوں کے لیے۔ اور نہ ہی اس کے نزول کا مقصد یہ ہے کہ دو چار سورتوں کی تلاوت کر کے اس کا ثواب کسی مقدس ہستی کی بارگاہ میں ہدیہ کیا جائے۔
“یہ تو صرف نصیحت اور واضح قرآن ہے۔ تاکہ جو زندہ ہے اسے ڈرائے”
(سورہ یس)
جب سے مجھے اللہ نے عقل و شعور عطا کیا، مجھے جب بھی نذر دینے کی دعوت دی گئی ، میں نے ہاتھ اٹھا کر دعوت دینے والے کی صحت و سلامتی اور عقل و عمر میں اضافہ کی دعا کی ۔ اور قران کریم کو اس مقصد کے لئے تلاوت نہیں کیا۔
قُلْ اِنَّ صَلَاتِىْ وَنُسُكِىْ وَمَحْيَاىَ وَمَمَاتِىْ لِلّـٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ۔
کہہ دو کہ بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ ہی کے لیے ہے جو سارے جہان کا پالنے والا ہے۔
( سورہ انعام آیت 162)
اللہ ہمیں اسلام کو سمجھنے کی توفیق عنایت فرمائے اور بدعات و خرافات سے دور فرمائے
ابو جون رضا