میرے کزن نے حالیہ ملاقات میں مجھے سوفی ربورٹ کے بارے میں بتایا جو AI کی ترقی کی بدولت یو این او میں تقریر کر چکی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی کا ایک سفر ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ 2050 میں اپنے عروج پر ہوگا ۔ جب دنیا میں ایلون مسک کے خواب کے تحت انٹرنیٹ مفت میں سب کو حاصل ہوگا۔ یہ انقلاب صرف کمپیوٹرز کی کارکردگی کے متعلق نہیں بلکہ علوم حیاتیات اور علوم سماجیات میں بھی برپا ہوگا۔ اندازہ ہے کہ AI کی بدولت انسانوں کے بہت سے ایسے کام سنبھالے جا سکیں گے جن میں جھوٹ اور فریب کے خدشات زیادہ ہوتے ہیں۔ اسی طرح AI بینکرز ، قانون دان اور ڈرائیورز کی جگہ لے سکتی ہے۔ مثال کے طور پر AI کا نظام کیونکہ ٹریفک کے قوانین کی مکمل آگہی رکھتا ہوگا تو خود کار گاڑیاں بہت سے حادثات سے محفوظ رہ سکیں گی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس انسانوں پر قابو پا لے؟
2004 میں ریلیز کی گئی مووی I,Robot اسی طرح کے فکشن پر مبنی تھی کہ 2035 میں ربورٹس نے دنیا کا نظام سنبھال لیا ہے۔ لیکن ول اسمتھ نے جو ہیرو کا کردار اداکر رہے تھے روبورٹس پر قابو پا لیا تھا۔ The Matrix, Ex Machina بھی اسی طرز کی فلمز ہیں جن میں انسان کی خودی اس کو خود کار نظام سے لڑواتی ہے اور انسان اس سے جیت جاتا یے۔
ربورٹ پر فتح پانے کے باوجود بھی ربورٹ سے نجات نہیں مل سکتی کیونکہ ربورٹ پر قابو پانے والا دماغ موجود رہے گا۔
ان فکشن کہانیوں سے جہاں نئے خیالات بھی جنم لیتے ہیں وہیں دنیا کے مشہور فلمساز ادارے بے تحاشا دولت کماتے ہیں۔ لوگ میٹرکس کی طرح ڈبے میں بند زندگی نہیں گزارنا چاہتے مگر وہ نہیں جانتے کہ وہ ڈبے میں ہی زندگی گزار رہے ہیں ۔ اور ان کے معاشرے فکشن کی قید میں ہیں۔
اس معاملے میں سب سے زیادہ برے اثرات مذہب پر پڑتے نظر آتے ہیں۔ کیا مزہب اس بات کی اجازت دے گا کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس یہ مشورہ دے کہ کس انسان کو شادی کے لیے کس طرح کا شریک حیات چننا چاہیے؟
مذاہب شناخت پر زور دیتے ہیں لیکن ساتھ میں یہ احساس بھی پیدا کرتے ہیں کہ جو جس مذہب و مسلک سے وابستہ ہے بس وہی صحیح ہے اور دوسرا غلط ہے۔ یہ احساس برتری مخالف مذہب اور مسلک کے حامی کو مرتا دیکھ کر بھی ہمدردی پیدا نہیں کرتا بلکہ سرگوشی کرتا ہے کہ یہ مخالف عقیدے والے پر خدا کا عذاب ہے
اللہ ہمیں دین و دنیا کے تقاضوں کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ابو جون رضا