اس کا جواب آج سے دو ہزار سال پہلے ایک فلسفی نے دیا، اس کا نام سینیکا (Seneca) تھا.
یہ روم کے شہنشاہ نیرو کا اتالیق تھا، وہی نیرو جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب روم جل رہا تھا تو نیرو وائلن بجا رہا تھا (بانسری غالباً رومیوں کا ساز نہیں تھا) سینیکا نے فلسفے کے موضوعات پر درجن بھر مقالے قلم بند کیے اور اخلاقیات پر ایک سو چوبیس خطوط لکھے، اُس کے ایسے ہی ایک مضمون کا عنوان ہے On the Shortness of Life۔
ہم سب کو لگتا ہے کہ زندگی بہت تھوڑی ہے اور اس میں ہمیں بہت کچھ حاصل کرنا ہے، وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ، شروع کے بیس پچیس سال تو اسکول کالج میں ہی گزر جاتے ہیں، اس کے بعد نوکری کی تلاش، کاروبار کی شروعات اور فکر معاش ہمارے چار پانچ برس کھا جاتے ہیں، کبھی کبھی تو اس سے بھی زیادہ، اسی بیچ کہیں شادی ہو جاتی ہے، پھر بچے ہو جاتے ہیں اور اس کے بعد باقی کی زندگی بچوں کی تعلیم اور ان کے مستقبل کی فکر میں گزار دی جاتی ہے، یہ سب پلک جھپکنے میں گزر جاتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ عمر تو ساٹھ برس ہو گئی اور کیا کچھ بھی نہیں، سوچا تو یہ تھا کہ دس پندرہ برس محنت سے پیسے کمائیں گے اور اس کے بعد اطمینان سے زندگی گزاریں گے مگر وہ دس پندرہ برس کبھی ختم نہیں ہوتے، وہ اطمینان کی زندگی کا وقت ہی نہیں آتا، الٹا اپنے جانے کا وقت آجاتا ہے۔ تو کیا واقعی زندگی ایسی ہی مختصر ہے؟
سینیکا کا کہنا ہے ’’نہیں‘‘۔ اصل میں ہم میں سے زیادہ تر لوگ اپنی زندگی معمولی باتوں کی نذر کر دیتے ہیں اور ہمیں اس کا احساس بھی نہیں ہو پاتا”
فون پر گھنٹوں بے معنی گفتگو کرنا، بے مقصد ٹی وی کو گھورتے رہنا، فضول پوسٹس دیکھ دیکھ کر وقت ضائع کرنا یا اُن لوگوں کے ساتھ وقت بِتانا جو آپ کی زندگی میں کوئی معنی نہیں رکھتے۔ یہ تمام حرکتیں کرنے کے بعد ہم کہتے ہیں کہ زندگی بہت مختصر ہے جبکہ سچ یہ ہے کہ ہم خود اسے مختصر بنا دیتے ہیں۔ دوسری غلطی ہم لوگ یہ کرتے ہیں کہ اپنی پوری زندگی طاقت اور مقام حاصل کرنے میں لگا دیتے ہیں، یہ سوچ کر کہ جب ہم زندگی میں کوئی رتبہ حاصل کر لیں گے تب ہماری ’’لائف سیٹل ہو جائے گی‘‘۔۔۔ ایسا نہیں ہوتا-۔۔۔ ہوتا یہ ہے کہ ہماری زندگی مستقبل کا کوئی نہ کوئی مقصد حاصل کرنے میں بیت جاتی ہے اور اس چکر میں ہم اپنا حال بھی گنوا بیٹھتے ہیں، ہم اپنی پوری زندگی مسلسل زندگی کی تیاری میں گزار دیتے ہیں حتیٰ کہ مرنے کے بعد بھی ہمیں اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ لوگ ہمیں کیسے یاد رکھیں گے- تب تک زندگی ختم ہو چکی ہوتی ہے۔
(ایک کالم سے اقتباس)
اپنی زندگی کا جائزہ لیجئے۔ کیا کھویا اور کیا پایا۔ فضول قسم کی وڈیوز اور باتوں پر وقت ضائع کرنے کے بجائے تعمیری اور فلاح انسانیت والے کاموں میں وقت لگائیے۔ نوکری کرنا ، کاروبار کرنا زندگی گزارنے کے لیے بہت اہم ہے۔ اس کو مکمل وقت دیجئے لیکن اس کے بعد جو وقت بچے اس کو فضول ضائع نہ کریں۔
زندگی ریت کی طرح ہوتی ہے۔ مٹھی بھر کر اٹھائیں ۔آہستہ آہستہ ہاتھ سے پھسلتی جاتی ہے اور جب مٹھی کو کھولا جائے تو پتا چلتا ہے کچھ بھی ہاتھ میں نہ رہا۔
ابو جون رضا