ہمارے یہاں رواج ہے کہ اچھے کاموں کی شروعات سے پہلے خاص کر نکاح اور شادی بیاہ کے معاملات میں ، جنتری نکال کر سعد اور نحس تاریخ کا جدول دیکھا جاتا یے اور اسی حساب سے معاملات طے کیے جاتے ہیں۔
اہلبیت کے نام لیواء سب سے زیادہ اس قسم کی خرافات میں ملوث پائے جاتے ہیں۔
دنیا جہاں میں شادی بیاہ اور نکاح وغیرہ کے معاملات صبح شام طے پاتے ہیں۔ اگر ان ایام میں کوئی اثرات ہوتے تو رسول اکرم ہر نکاح سے پہلے دن تاریخ دیکھنے کی روایت کو امت میں جاری کرتے۔
جبکہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ اگر دن تاریخ کے حوالے سے کچھ روایات تاریخی منابع میں موجود بھی ہیں تو وہ زیادہ تر ضعیف اور من گھڑت ہیں۔
میں نے خود مشاہدہ کیا کہ ان معاملات کو سنجیدگی سے لینے والے افراد کے یہاں شادی کے بعد جھگڑے لڑائی اور علیحدگیاں واقع ہوئیں۔ عقل واضح طور پر رہنمائی کرتی ہے کہ زندگی کی گاڑی چلانے کے لیے عقل و برداشت کا ہونا ضروری ہے ناکہ جنتری سے کوئی اچھی تاریخ دیکھنے کی وجہ سے گھریلو زندگیاں سکون سے گزرتی ہیں۔
میں اس کو شرک سے تعبیر کرتا ہوں اور ائمہ کی شادیوں کی مخصوص تاریخوں پر اچھے کاموں کی ابتداء کرنے والوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا ائمہ کی شادی سے پہلے زمین پر یہ تواریخ منحوس ہوا کرتی تھیں؟ یا ائمہ کی شادی کے بعد ان ایام میں سعد اور خیر کا نزول ہونے لگا؟
ایک روایت اس ضمن میں ملاحظہ کیجئے۔
“امام علی نقی علیہ السلام کے دوستوں میں سے ایک شخص کہتا ہے:
میں امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا، حالانکہ راستہ میں میری انگلی زخمی ہوگئی تھی، چونکہ ایک سواری میرے پاس سے گزری جس کی وجہ سے میرا شانہ زخمی ہوگیا، جس کی بنا پر کچھ لوگوں سے نزاع ہوگئی اور انھوں نے میرے کپڑے تک پھاڑ ڈالے۔
میں نے کہا: اے دن !خدا تیرے شر سے محفوظ رکھے، کتنا برا دن ہے۔
اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا:
تو ہماری محبت کا دعویٰ کرتا ہے اور اس طرح کہتا ہے؟
اس دن کی کیا خطا ہے جو تو اس دن کو گناہگار قرار دیتا ہے؟
چنانچہ وہ شخص کہتا ہے کہ میں امام علیہ السلام سے یہ گفتگو سن کر ہوش میں آیا اور میں نے اپنی غلطی کا احساس کرتے ہوئے عرض کی:
اے میرے مولا و آقا! میں توبہ و استغفار کرتا ہوں، اور خدا سے بخشش طلب کرتا ہوں۔
اس موقع پر امام علیہ السلام نے فرمایا:
”دنوں کا کیا گناہ ہے؟ کہ تم ان کو بُرا اور نحس مانتے ہو جب کہ تمہارے اعمال ان دنوں میں تمہارے دامن گیر ہوتے ہیں“؟
راوی کہتا ہے:
”میں نے عرض کی میں خدا سے ہمیشہ کے لئے استغفار کرتا ہوں، اے فرزندِ رسول !میں توبہ کرتا ہوں“۔
اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا:
”اس سے کوئی فائدہ نہیں، جس چیز میں مذمت نہیں ہے اس کی مذمت کرنے پرخدا تمہیں سزا دے گا ، کیا تمہیں نہیں معلوم کہ خداوندعالم ثواب و عذاب دیتا ہے، اور اعمال کی جزا اس دنیا اور آخرت میں دیتا ہے،
اس کے بعد مزید فرمایا:
اس کے بعد اس عمل کی تکرار نہ کرنا، اور حکم خدا کے مقابل دنوں کی تاثیر پر عقیدہ نہ رکھنا“
(تحف العقول ، بحا رالانوار ، جلد۵۹، صفحہ ۲)
دعا ہے پروردگار ! ہماری عقل و شعور میں بڑھوتی عنایت فرما اور ہمیں دین کو سمجھنے کی توفیق عطا فرما۔
ابو جون رضا