مجھے دس سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا سوشل میڈیا پر غلات اور تعصب کے مارے لوگوں سے برسر پیکار رہتے ہوئے۔ گذشتہ چار سالوں سے فلسفہ پڑھنے کے بعد میرا عقلیات پر زور رہا ہے۔
جو باتیں میرا جیسا طالب علم دس سال پہلے کہتا تھا اور ان کی وجہ سے لوگ مجھے گمراہ اور بھٹکا ہوا سمجھتے تھے۔ ان باتوں کو آج جب جید علماء اور مفکرین کے منہ سے سنتا ہوں تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے غور و فکر کی صلاحیت دی اور بہترین استاد دیے جنہوں نے مجھ میں تنقیدی صلاحیت کو جلاء بخشی۔
برصغیر میں لوگوں کو مذہب کے نام پر پاگل بنایا گیا ہے۔ یہ اپنے جیسے انسانوں سے مذہب کے نام پر نفرت کرتے ہیں۔ مخالف مسلک یا مذہب سے وابستہ افراد کی موت کی خبر سن کر خوش ہوتے ہیں۔
اس سے بڑی انسانیت کی تذلیل نہیں ہوسکتی کہ میں کسی کے مرنے کی خبر سن کر خوشی کا اظہار کروں۔
مفضل بن عمر کی ایک روایت میں نے زمانہ دراز پہلے مذہبی متون میں پڑھی تھی جس میں ذی الحجہ کی ایک تاریخ کے فضائل میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ اس روز رسول خدا خوش ہوئے یہاں تک کہ اللہ خوش ہوا کہ یہ وہ روز ہے جس دن ایک دشمن خدا مر جائے گا۔
مجھے روایت پڑھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ روایت گھڑنے والا اور اس کو لکھنے والا اس قدر تعصب میں اندھے تھے کہ ان کو یہ سمجھ نہیں آیا کہ کسی کے مرنے کی خبر سے خدا کے خوش ہونے کا کیا تعلق ہے؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا بھی نعوذباللہ مجبور ہے کہ اپنے دشمن کو نہیں مار سکتا ، لیکن اس نے اپنے رسول کو خبر دے دی کہ فکر نہ کرو، فلاں ذی الحجہ کی تاریخ کو تمہارا دشمن جو اس وقت مسلمان بنا تمہارے ساتھ بیٹھا ہے ، وہ مر جائے گا اور یہ خبر سن کر رسول بھی خوش ہورہے ہیں۔ العجب
لوگوں کو جگانے کا سلسلہ تاعمر ہی چلے گا۔ دعا ہے کہ اللہ توفیقات میں اضافہ کرے۔
سلیم کوثر کی غزل کا آخری مصرعہ یاد آرہا ہے۔ پوری غزل ہی لکھ دیتا ہوں ۔
آب و ہوا ہے ، برسر پیکار کون ہے
میرے سوا یہ مجھ میں گرفتار کون ہے
اک روشنی سی راہ دکھاتی ہے ہر طرف
دوش ہوا پہ صاحب رفتار کون ہے
ایک ایک کر کے خود سے بچھڑنے لگے ہیں ہم
دیکھو تو جا کے قافلہ سالار کون ہے
بوسیدگی کے خوف سے سب اٹھ کے چل دیئے
پھر بھی یہ زیر سایہ دیوار کون ہے
قدموں میں سائے کی طرح روندے گئے ہیں ہم
ہم سے زیادہ تیرا طلب گار کون ہے
پھیلا رہا ہے دامن شب کی حکایتیں
سورج نہیں تو یہ پس کہسار کون ہے
کیا شے ہے جس کے واسطے ٹوٹے پڑے ہیں لوگ
یہ بھیڑ کیوں ہے ، رونق بازار کون ہے
اے دل اب اپنی لو کو بچا لے کہ شہر میں
تو جل بجھا تو تیرا عزادار کون ہے
اب تک اسی خیال سے سوئے نہیں سلیمؔ
ہم سو گئے تو پھر یہاں بے دار کون ہے
ابو جون رضا