ایک مجلس کا قصہ

ایک مجلس میں جانے کا اتفاق ہوا۔ مولانا نے اچھی گفتگو کی۔ انہوں نے فرمایا کہ اہل بیت کا تعارف علم اور تقوی سے ہوتا ہے مگر ہماری عوام ان دونوں سے کوسوں دور ہے۔ اہل بیت نے کبھی دنیاوی چیزوں کی طرف نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھا، وہ ہمیشہ آخرت کے متلاشی رہے۔

انہوں نے بتایا کہ کسی نوجوان نے آکر ان سے پوچھا کہ کسی بھی طرح کی کیلکولیشن کرکے دیکھ لیں، ایک رات میں ہزار رکعت نماز ادا نہیں ہوسکتی، ائمہ نے کیسی پڑھ لی؟ تو انہوں نے بجائے روایت کی سند دیکھنے کے، یہ کہہ کر جان چھڑائی کہ وہ حضرت علی تھے ، آپ ان کو کیسے خود سے تقابل کرسکتے ہیں؟ وہ گھوڑے کی ایک رکاب میں پیر رکھتے تھے اورجب دوسری رکاب میں پیر رکھنے کے لیے جمپ کرتے تھے تو ایک قران ختم کر لیتے تھے۔

یہ دونوں روایات جعلی اور موضوع ہیں۔ خاص کر گھوڑے پر اچھلتے ہوئے قران پڑھنے والی روایت۔ یہ صوفیاء کے متن میں سے اہل تشیع کی کتابوں میں در آئی ہے۔

مولانا نے گفتگو کے دوران خود ہی اپنی بات کی تردید میں ایک روایت پیش کی کہ امام نے بتایا کہ وہ تین دن میں ایک قران ختم کرتے ہیں، حالانکہ وہ چاہیں تو ایک دن میں قران ہورا پڑھ سکتے ہیں، مگر تدبر کرتے ہیں اور ایک ایک آیت پر غور و فکرکرتے ہیں۔

ایک اچھی بات جو مجھے دیکھنے کو ملی وہ یہ تھی کہ مولانا صاحب جب بھی کوئی روایت پڑھتے تو یہ ضرور کہتے کہ میرے پاس جیب میں اس روایت کا حوالہ موجود ہے، اگر کوئی دیکھنا چاہے تو مجلس کے بعد حوالہ طلب کرسکتا ہے۔ یہ بات مجھے بارش کا پہلا قطرہ محسوس ہوئی، بارہ سال سے اسی بات کا پرچار کرتا آیا ہوں کہ منبر سے جھوٹی روایات نہ پڑھی جائیں بلکہ مستند منابع سے روایات سنائی جائیں۔ امید ہے کہ آگے چل کر منبر پر بیٹھنے والے رجال کی طرف بھی توجہ کریں گے تاکہ صرف حوالہ دیکر وضعی اور جعلی روایات پڑھنے کا راستہ نہ کھلے۔

مولانا نے امام علی رضا کی وفات کی شب کے حوالے سے ان کے مصائب پڑھے۔ اور کہا کہ وہ غریب الغرباء اس لیے کہلائے کیونکہ پردیس میں بالکل تنہاء تھے جب ان کی وفات ہوئی۔

اس حوالے سے انہوں نے انگور میں زہر کو ملا کر کھلانے والی روایت نقل کی جو مامون نے ان کو زبردستی کھلایا جبکہ یہ روایت ضعیف ہے۔ اس سے بہتر روایت ابا صلت ہروی سے موجود ہے جس میں انار کے دانوں کو انفیکٹڈ ہاتھوں سے مسل کر اس کا رس پلانے کا ذکر ہے ، اگرچہ یہ بھی مرسل روایت ہے۔

شیخ مفید جن کو امام مہدی کا خط موصول ہوا تھا جس میں ان کو اپنا بھائی کہہ کر مخاطب کیا گیا تھا ، وہ امام رضا کو زہر خوانی سے شہید نہیں مانتے تھے اور ان کے بیمار ہوکر دنیا سے وفات کے قائل تھے۔

ائمہ سے منسوب یہ روایت کہ ہم میں سے ہر ایک زہر یا تلوار سے شہید ہوگا، بھی ضعیف ہے اور آیت اللہ ہاشم معروف نے اس پر سیرت ائمہ اہلبیت میں کلام کیا ہے۔

مامون نے امام رضا کی شہادت کے بعد ان کی قبر پر تین شبانہ روز خیمہ لگایا اور گریہ و زاری کی تھی ۔ وہ کہتا تھا کہ میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ میں امام رضا کے دنیا سے چلے جانے پر افسوس کروں یا اس بات پر روؤں کہ مجھ پر یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ میں نے امام رضا کو قتل کیا ہے۔

اس نے امام محمد تقی سے اپنی بیٹی کی شادی کروادی تھی حالانکہ وہ کافی کم عمر تھے۔

ان باتوں کا مقصد مامون کا دفاع نہیں ہے بلکہ یہ پہلو بھی بیان کرنا ہے کہ اہل تشیع کے ہی بعض جلیل القدر علماء تمام ائمہ کے تلوار یا زہر سے شہادت کے قائل نہیں رہے ۔ اس نظریے سے ان کے دین ایمان پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ لیکن کیونکہ ہم تاریخ کے واقعات کو ولن کے اینگل سے دیکھنے کے عادی ہیں، اس لیے ظلم میں کسی بھی قسم کی کمی ہمیں گوارا نہیں ہے ، چاہے جھوٹے مظالم بیان کیے جائیں۔

حالیہ دور کے ایک جلیل القدر عالم اور مشہور زمانہ شخصیت کا کہنا ہے کہ عزاداری برپا کرنا صرف امام حسین کے لیے ثابت ہے باقی ائمہ کے لیے اس کا استحباب ثابت نہیں ہے۔ (یہ بات کیونکہ میں نے ایک ثقہ شخصیت سے سنی یے جنہوں نے اپنے کانوں سے اس بات کو سنا ہے اس لیے یہاں نقل کی، لیکن کیونکہ حوالہ موجود نہیں یے اس وجہ سے اس عالم کا نام نہیں لکھ رہا جن سے یہ بات منسوب کی گئی ہے)

مجلس عزاء کے بعد پرتکلف کھانے کا اہتمام تھا ۔ دعا ہے کہ پروردگار اس محفل کے منتظمین کے علم و رزق میں بڑھوتی عنایت فرمائے اور ان کی توفیقات میں اضافہ فرمائے۔

ابو جون رضا

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *