رئیس امروہی صاحب کی کتاب کا مطالعہ کررہا تھا۔ آج کل ٹریفک حادثہ کی وجہ سے صاحب فراش ہوں ۔ مطالعہ میں وقت گزر رہا ہے۔ رئیس امروہی صاحب نے اپنے پاس آنے والے خطوط کو کاتب کا نام چھپا کر عوام کے سامنے پیش کیا ہے اور ان پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔
میں اس موضوع پر کئی کتابیں جیسے نیاز فتح پوری کی ترغیبات جنسی اور علی عباس جلال پوری کی جنسیاتی مطالعے پڑھ چکا ہوں۔ لیکن اس کتاب کا مطالعہ نہیں کیا تھا ایک دوست نے مجھ سے اس کا ذکر کیا کہ تو میں نے خرید لی۔
رئیس امروہی صاحب کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اس دور میں اس موضوع پر لکھا جو شاید آج بھی ہمارے معاشرے میں “ٹیبو” کا درجہ رکھتا ہے۔ یہاں سیکس ایجوکیشن پر گفتگو نہیں کی جاتی اور بچہ یا بچی اپنی بلوغت کے زمانے میں کن کیفیات سے گزرتے ہیں ان پر گھر میں بات کرنا بہت گناہ سمجھا جاتا یے۔ ہمارے یہاں ہر چیز کی ٹانگ مذہب پر آکر ٹوٹتی ہے۔ باپ نوجوان لڑکوں کو طریقے سے رہنمائی نہیں کرتا اور ماں لڑکیوں سے ان موضوعات پر بات نہیں کرتی۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچہ یا بچی اسکول کالج سے غلط صحیح باتیں سیکھتے ہیں اور اپنی ایک خیالی دنیا تشکیل دیتے ہیں جس میں ان کا پسندیدہ انسان مختلف “حالتوں” میں موجود ہوتا ہے۔
رئیس امروہی صاحب کے پیش کردہ بعض خطوط تو ایسے ہیں کہ ان کو پڑھ کر چودہ طبق روشن ہوجاتے ہیں اور اندازہ ہوتا ہے کہ جنسی قوت جب اپنے جوبن پر آتی ہے تو کیا گل کھلاتی ہے ۔
منٹو صاحب نے درست لکھا تھا کہ
“مرد کی نظروں کو اگر عورت کے دیدار کا بھوکا رکھا گیا تو شاید وہ اپنے ہم جنسوں اور حیوانوں ہی میں اس کا عکس دیکھنے کی کوشش کریں”
کتاب کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ انیس سو تہتر میں بھی مردوں اور عورتوں کے وہی مسائل تھے جو آج درپیش ہیں۔ بس انداز بدلتے رہتے ہیں
علامہ اقبال کی روح سے معذرت کے ساتھ
حقیقت ابدی ہے مقام جنسیت
بدلتے رہتے ہیں انداز مرد و عورت
تاریخ کا مطالعہ کریں خاص کر اسلامی تاریخ اگر دیکھیں تو لونڈیوں کی داستانوں سے بھری ہوئی ہے ۔صدر اسلام کا دور ہو یا اس کے بعد خلافت اور پھر ملوکیت کا دور، سب ادوار میں مردوں نے عورتوں کو ان کا یہ حق وافر مقدار میں دیا اور ان کا اتنا خیال رکھا کہ کبھی ان کو خالی پیٹ سونے نہیں دیا۔
علامہ طالب جوہری مرحوم نے ایک دفعہ نشتر پارک میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ حضرت علی کو جب ضربت لگی تو ان کے بائیس لڑکے موجود تھے۔ لڑکیوں کی تعداد تیرہ بتائی جاتی ہے۔ لازمی سی بات ہے کہ یہ ساری اولادیں کسی ایک خاتون سے متولد نہیں ہوئیں تھیں۔
حضرت علی اکبر کے سہرے اور شادی کا ذکر شیعہ مجالس میں کیا جاتا ہے اور رویا پیٹا جاتا یے کہ ان کی شادی نہ ہوسکی اور اہلبیت کی خواتین کو ہندوستانی عورتوں کی طرح ان کے سہرے کا بڑا ارمان تھا۔ جبکہ تاریخ بتاتی ہے ان کی ایک ام ولد کنیز تھی۔ ویسے بھی عربوں میں مردوں کے متاہل رہنے کا رواج نہ تھا۔ وہ بالغ ہوتے ہی گھر میں پھرنے والی لونڈیوں سے فورا استفادہ کرتے تھے۔
عثمانی سلاطین کے پاس لونڈیوں کا جم غفیر تھا ان کا معمول تھا کہ جب نماز مغرب کے بعد حرم تشریف لاتے تھے یا کسی کام سے دن میں حرم سراء آتے تھے تو کنیزیں دو رویہ کھڑی ہوجاتی تھیں۔ اگر ان کو کوئی کنیز پسند آجاتی تھی تو اس کے کندھے پر اپنا رومال ڈال کر آگے بڑھ جاتے تھے ۔ یہ اشارہ ہوتا تھا کہ شہزادے یا بادشاہ کو کنیز پسند آگئی ہے۔ اس کو فورا کنیزوں کے جھتے سے الگ کرکے شاہی آداب اور بادشاہ کی “پسندیدہ پوزیشنز” کے بارے میں بتایا جاتا تھا کہ کہ کمرے میں جاکر کہاں کھڑا ہونا ہے ۔ بستر کے پایہ کو بوسہ دیکر کیا کہنا ہے۔ پھر جب بادشاہ قریب بلائے تو کیا کرنا ہے وغیرہ۔
اگر بادشاہ نے ایک ہی کنیز کو شب باشی کے لیے دو مرتبہ طلب کرلیا ہے تو یہ بہت بڑی بات سمجھی جاتی تھی اور وہ عورت کنیز خاص کا درجہ پا لیتی تھی۔ کیونکہ جب الماری ہر وقت نئے کپڑوں سے بھری ہو تو پرانے کوئی کیوں پہنے گا؟
ان خواتین کے زریعے امراء بڑے بڑے کام نکلوا لیتے تھے۔ کیوں کہ یہ بادشاہوں کی منہ چڑھی ہوتی تھیں۔
ہمارے پرانے باس کی ایک گرل فرینڈ تھیں۔ انتہائی رکھ رکھاو والی شخصیت کی مالک تھیں۔ ہمارے باس ان کے پیچھے غلام کی طرح گھومتے تھے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان کے شوہر کو بھی پتا تھا کہ میری وائف کے فلاں صاحب کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں مگر وہ خاموش شاید اس لیے رہتے تھے کہ ان کو ایک بڑا بزنس “فورم” جیسے شاپنگ مال ہمارے باس نے قائم کرکے دیا تھا۔
خیر قصہ مختصر اگر ہمارے آفس میں کسی کو کام نکلوانا ہوتا تھا تو لوگ یہ کہتے تھے کہ میڈم سے کہہ دو ۔ اگر وہ سفارش کردیں تو باس کبھی نا نہیں کریں گے۔
بقول شخصے ، ایسا لگتا یے کہ انسانی تاریخ مادہ منویہ اور اووری کے گرد ہی گھومتی ہے۔
ابو جون رضا