ایک دہریے نے کسی بزرگ سے آخرت کے ہونے پر دلیل طلب کی۔ بزرگ نے اسے جواب دیا ۔
فرض کرو کہ آخرت نہیں ہے اور میں نے اپنی زندگی آخرت کے خوف میں مبتلا ہو کر نیکیاں کرتے ہوئے گزاری دی ۔
میں دنیا کی رنگینیوں سے لطف نہ لے سکا لیکن جب میں مرا تو آخرت نہیں تھی ۔چنانچہ مجھے نیکیوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
اس کے برعکس فرض کرو آخرت ہے اور تم نے اپنی زندگی یہ سمجھتے ہوئے گزار دی کہ آخرت نہیں ہے۔ ایسی صورت میں یقینا تم اخلاقیات سے عاری زندگی گزارو گے اور جب تم مرے اور تمہیں پتا چلا کہ آخرت ہے تو تمہارا کیا ہوگا؟ کیونکہ ایک مختصر زندگی کے گناہوں کا بدلہ ایک طویل زندگی میں دینا پڑے گا ۔
بزرگ کا یہ استدلال سن کر وہ دہر یہ مسلمان ہو گیا ۔
ویسے تو یہ استدلال چانس پر مبنی ہے۔ یعنی آخرت کو مان لینے میں مصلحت ہے۔ زیادہ بہتر تو یہ ہے کہ ہم دنیا کے ہر مذہب پر ایمان لے آئیں تاکہ آخرت میں پوچھ گچھ کے ٹنٹے سے ہی بچ جائیں۔
فرض کرتے ہیں کہ ایک ملحد ساری زندگی اچھے اصولوں پر زندگی گزارتا یے اور ایک مسلمان چوری ملاوٹ اور دھوکہ دہی کی زندگی گزارتا یے ۔ ملحد آخرت پر ایمان نہیں رکھتا اور مسلمان آخرت پر ایمان رکھتا ہے۔
مرنے کے بعد دونوں کے ساتھ کیا سلوک ہوگا؟
ایک بات فرض کی گئی ہے کہ آخرت پر ایمان نہ رکھنے والا ہمیشہ غیر اخلاقی اصولوں پر زندگی بسر کرے گا اور آخرت پر ایمان رکھنے والا ہمیشہ اخلاقی اصولوں کے تحت زندگی گزارے گا۔
فرض کرتے ہیں کہ ایک مذہبی انسان شخص ملحد ہوجاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ ملحد ہوتے ہی شراب پینے، ریپ کرنے ، چوری چکاری اور ڈاکہ زنی جیسے برے کام کرنے نکل پڑے گا ؟
جب تک انسان بنیادی اخلاقی اصولوں کو نہیں سمجھے گا تب تک وہ اسی طرح کی فضول اور لایعنی باتوں میں گرفتار رہے گا۔
ابو جون رضا