صفوی دور شیعت میں بہت تاریک دور گزرا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایران میں اہل تشیع برسر اقتدار آئے تھے۔ حکمران طبقے نے مذہب حقہ کے نام پر بے تحاشہ نئی باتوں اور رسومات کا دین میں اضافہ کیا۔ انہوں نے شیعت کی رگوں میں ایسا میٹھا زہر اتارا جس کا اثر آج بھی باقی ہے۔
گیارہ بارہ سال کا ایک طویل سفر ہے جس میں چاہتے ناچاہتے مجھے یہ بات لوگوں سے بار بار کہنی پڑی ہے کہ اللہ اپنے امور پر قادر ہے اس کو کسی پارٹنر کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ بندے کی دعا یہاں تک کہ اس کے ذہن میں جو خیالات گزرتے ہیں ان سے بھی بخوبی واقف ہے۔ اللہ دنیاوی بادشاہوں کی طرح نہیں ہے جنہوں نے دربان کھڑے کر رکھے ہوتے ہیں یا ان تک رسائی کے لیے کسی قریبی یا مقدس شخصیت کا وسیلہ پکڑنا لازمی ہوتا ہے۔
مجھے اللہ نے اولاد نرینہ سے نوازا ہے اور لڑکے عطا کیے ہیں۔ میری بیٹیاں بہت پسند ہیں لیکن اللہ کی مرضی یہ تھی کہ مجھے بیٹے دیے جائیں۔
حالانکہ میرے بچے ابھی چھوٹے ہیں اور ہم خالص مردانہ معاشرہ میں رہتے ہیں مگر اس کے باوجود مجھے یہ سننے کو ملتا ہے کہ ان صاحب کی اولاد کو کون اپنی بیٹی دے گا جبکہ یہ وسیلہ پر یقین نہیں رکھتے، علم زلجناح اور شبیہات کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ ان کے گھر مجلس ہوتی ہے اور نہ نذر نیاز ۔
دوسرے لفظوں میں یہ صاحب اور ان کی آل شیعت سے باہر نکل گئی ہے اور یہ لوگ وہابی سلفی ہوگئے ہیں۔
مجھے کبھی ان باتوں کی پرواہ نہیں رہی ۔ لیکن میں سوچتا ہوں کہ اگر اللہ نے مجھے لڑکوں کے بجائے لڑکیوں سے نوازا ہوتا تو کیا میرا اسٹانس اسی طرح سے ہوتا جس طرح سے آج ہے؟ یا اگر میری اولاد نہ ہوتی اور لوگ مجھے کہتے کہ ان کے عقائد کی وجہ سے اللہ نے ان کو محروم رکھا ہے تو میرا کیا حال ہوتا؟ مجھے یقین ہے کہ میرا موقف تب بھی یہی ہوتا کیونکہ جب میں انبیاء کی زندگی کا مطالعہ کرتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ سب سے زیادہ تکلیف ان کو اپنے خاندان والوں کے ہاتھوں ہی اٹھانی پڑی تھی۔ ابتر ہونے کا طعنہ یا “یہ مرجائیں گے تو ہم ان کی بیویوں سے شادی کرلیں گے” وغیرہ جیسی بے ہودہ باتیں جو شدید تکلیف پہنچاتی تھیں، وہ بھی یہ لوگ سہتے تھے اور کسی کو بد دعا نہیں دیتے تھے۔
مجھے یہ تک سننے کو ملا کہ اگر ان صاحب کے گھرانے پر کوئی بھی بیماری یا تکلیف آتی ہے تو وہ ان کے عقائد کی وجہ سے آتی ہے اور ان کو ڈرنا چاہیے کہ اللہ کہیں ان کو سخت سزا نہ دے اور کسی مشکل میں گرفتار نہ کردے.
مجھے افسوس ہوتا ہے کہ ایک کلمہ گو کے لیے لوگ کس طرح کے خیالات رکھتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ لوگ دلی طور پر چاہتے ہیں کہ میری فیملی کسی پریشانی میں گرفتار ہو تاکہ یہ لوگ بغلیں بجائیں کہ ان بد عقیدہ لوگوں کے ساتھ جو بھی ہورہا ہے وہ صحیح ہورہا ہے۔
قران کریم سورہ مزمل میں رسول اکرم کو تسلی دیتے ہوئے کہتا یے کہ
وَ اصۡبِرۡ عَلٰی مَا یَقُوۡلُوۡنَ وَ اہۡجُرۡہُمۡ ہَجۡرًا جَمِیۡلًا ﴿۱۰﴾
اور جو دل آزار باتیں یہ لوگ کہتے ہیں انکو سہتے رہو اور خوبصورتی سے ان سے کنارہ کش رہو۔
وَ ذَرۡنِیۡ وَ الۡمُکَذِّبِیۡنَ اُولِی النَّعۡمَۃِ وَ مَہِّلۡہُمۡ قَلِیۡلًا ﴿۱۱﴾
اور مجھے ان جھٹلانے والوں سے جو دولتمند ہیں سمجھ لینے دو اور انکو تھوڑی سی مہلت دے دو۔
دین میں جبر نہیں ہے ۔ خدا کی زمین پر اس کو نہ ماننے والے یا بت پرست تک سکون سے زندگی بسر کرتے ہیں اور وہ ان کو بھی رزق دیتا ہے۔ کمال تعجب ہے کہ لوگ کس طرح سے مقام خدا پر بیٹھ کر اپنے مخالف عقیدہ رکھنے والوں کے لیے برے خیالات رکھتے ہیں اور خود کو ہر قسم کی دنیاوی و اخروی پریشانی سے بری الذمہ سمجھتے ہیں۔
اس طرح کی باتوں کو سننے کے بعد حضرت ابراہیم کی گفتگو جو انہوں نے اپنے مربی سے کی وہ یاد آتی یے جب آپ نے ان سے فرمایا
“سلام ہے آپ کو۔ میں اپنے رب سے دعا کروں گا کہ آپ کو معاف کردے، میرا رب مجھ پر بڑا ہی مہربان ہے۔ میں آپ لوگوں کو بھی چھوڑتا ہوں اور ان ہستیوں کو بھی جنہیں آپ لوگ خدا کو چھوڑ کر پکارا کرتے ہیں۔ میں تو اپنے رب ہی کو پکاروں گا، امید ہے کہ میں اپنے رب کو پکارکے نامراد نہ رہوں گا”
میں نے بھی اب اپنا معاملہ خدا کے آگے رکھا ہے اور ہر طرف سے منہ پھیر کر اسی کی طرف رخ کیا ہے جس نے زمین و آسمان بنائے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔
ابو جون رضا