کامل الزیارات میں ایک روایت ہے کہ
اللہ عرفہ کے دن قبر امام حسین کے زائرین کی طرف دیکھنے سے ابتداء کرتا ہے۔ تو راوی نے حیرت سے پوچھا کہ اہل موقوف (حاجیوں) پر نگاہ کرنے سے پہلے؟ تو امام نے فرمایا
ہاں !
راوی نے پوچھا کہ وہ کس طرح ؟
امام نے فرمایا کہ
“حج تو ولد الزنا بھی کرتے ہیں لیکن کوئی بھی ولد الزنا زیارت امام حسین نہیں کرسکتا”
اس لحاظ سے ننانوے فیصد شیعہ حلال زادے ہوتے ہیں۔ اہل سنت کو بھی چاہیے کہ وہ زیارت امام حسین بجا لائیں کیونکہ اس سے ان کے والدین کے درمیان شرعی تعلق ہونے پر مہر لگ جائے گی۔
اسی طرح سے امام نے اپنے ایک صحابی سے کہاکہ
*زیارت امام حسین ان تمام کاموں سے افضل ہے جن میں تم لگے رہتے ہو (یعنی نماز روزہ حج وغیرہ)۔ صحابی نے امام سے حیرت سے پوچھا کہ کیا زیارت حسین کی اتنی فضیلت ہے؟ آپ نے فرمایا!
اس ذات کی قسم جس کے سواء کوئی معبود نہیں ہے۔ اگر میں تمہیں اس زیارت کی فضیلت بتادوں اور ان کی قبر کی فضیلت بتادوں تو تم “حج کرنا” چھوڑ دو اور تم میں سے کوئی حج نہ کرے۔
تیرے لیے افسوس ہے ! کیا تجھے نہیں معلوم کہ اللہ نے مکہ کو حرم بنانے سے پہلے کربلا کو امن والا بابرکت حرم امام حسین کی فضیلت کی وجہ سے بنایا*
یہ بھی کامل الزیارات کی روایت ہے اور سارے راوی اس روایت کے ثقہ ہیں۔
اس طرح کی روایات مدرستہ القائم اور ٹریول ایجنٹس کے لیے من بھاتا کھاجا ہیں۔ اگر ابن قولویہ اس دور میں زندہ ہوتے تو ٹریول ایجنٹس ان پر نوٹ نچھاور کرتے ، صدقے واری ہوتے کیونکہ ایران عراق کے جتنے ویزے زیارت کے لیے لگے اس میں انکی کتاب کا ایک بڑا کردار ہے۔
ایک انسان جب اسطرح کی روایات پڑھے گا تو اس کے دل میں خودبخود کربلا اور ایران جانے کی خواہش پیدا ہوگی کیونکہ امام حسین کی قبر کی زیارت کا ثواب ان ہزار عمرہ اور ہزار حج کے برابر ہے جو رسول اکرم نے خود انجام دیے ہوں۔ اور امام رضا کی زیارت کا ثواب ہزار عمرہ یا خود رسول اکرم کی زیارت کے مترادف ہے۔ یہاں تک کہ حالت خوف میں حج ساقط ہوجاتا ہے مگر زیارت امام حسین ساقط نہیں ہوتی۔
اس کے علاوہ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ پرانے زمانے میں بادشاہ کربلا جانے پر پابندی لگا دیا کرتے تھے اور شرط لگاتے تھے کہ اگر کسی کو کربلا جانا ہے تو وہ ہاتھ کٹوا لے اور کربلا چلا جائے تو لوگ ہاتھ کٹوا لیا کرتے تھے اور ٹنڈے ہوکر کربلا چلے جاتے تھے ۔
ایک عورت کو کربلا جانا تھا، حاکم وقت نے کہا کہ تمہارے دو بیٹے ہیں، ایک بیٹے کی گردن کٹوا لو اور کربلا چلی جاؤ تو اس مائی نے اپنے ایک بیٹے کی قربانی دی اور کربلا چلی گئیں، پھر دوبارہ جانے کا قصد کیا اور دوسرے بیٹے کی گردن کٹوائی اور کربلا چلی گئیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے اللہ سے شکوہ کیا اور کہا کہ مجھے زیادہ بچے کیوں نہیں دیے، اگر دیے ہوتے تو ان سب کو قربان کرکے کربلائے معلٰی کی زیارت کو جاتی۔ (جبکہ اس معاملے میں ساری سستی ان خاتون کی ہی تھی کہ زیادہ بچے پیدا کیوں نہ کیے) لیکن خیر جتنے بچے تھے سب کو کٹوا ڈالا اور زیارت بجا لائیں۔
جب اس طرح کی روایات لوگوں کو ٹریول ایجنٹس سناتے ہیں تو معصوم لوگ پہلے اپنے ہاتھ دیکھتے ہیں، اپنی اولاد پر نظر ڈالتے ہیں اور پھر زندگی بھر کی جمع پونجی ان ٹریول ایجنٹس کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں جو ان کو تاسف کی نظروں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ شرم کرو، اب تو زیارت پر چلے جاؤ جبکہ ہاتھ کٹوانے کا مسئلہ درپیش ہے نہ اولاد مروانے کا ۔
ان روایات کا ایک فائدہ اور بھی ہے جو علماء نے آل سعود کے برسر اقتدار آنے سے پہلے ہی بھانپ لیا تھا کہ اگر سعودی عرب پر کسی زمانے میں ناصبی برسر اقتدار آگئے اور انہوں نے اہل تشیع پر کسی قسم کی پابندی لگائی تو ہم ان کو ٹھینگا دکھاتے ہوئے کربلا کی زیارت کو چلے جائیں گے
جس طرح ضرورت ایجاد کی ماں ہے اسی طرح سے کامل الزیارات تمام ٹریول ایجنسیوں کی امی جان ہے۔ جس کی بدولت بے تحاشہ گھروں کے چولہے جل رہے ہیں
اس کتاب اور اس کے مصنف کو میرا سلام
ابو جون رضا