جس زمانے میں حقیر برانچ منیجر تھا اس وقت مدرسے سے ایک فارغ التحصیل کلائنٹ سے میری اچھی دوستی ہوگئی تھی ۔ اس شخص کی ایک بات مجھے بہت پسند تھی کہ وہ کسی معاملے میں جھوٹ یا چشم پوشی سے کام نہیں لیتا تھا چاہے رائے اس کے خلاف ہی کیوں نہ جاتی ہو۔
مثال کے طور پر وہ حافظ قران بھی تھا۔ رمضان کے دنوں میں دو چار جگہ قرآن سناتا تھا۔ میں نے پوچھا کہ یار اگر تیس پارے ہیں اور روز ایک پارہ تم ختم کرو تو تیس دن تک ایک ہی جگہ قران سناؤ گے یہ دو تین جگہ تم کیسے قران سنا لیتے ہو تو ہنستے ہوئے کہنے لگا کہ بھائی اسپیڈ بھی کوئی چیز ہوتی ہے؟
پھر میں نے پوچھا کہ یار تم قران سناتے ہو تو اس کے معنی پر غور و فکر کرتے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ اتنی فرصت کس کو ہے کہ معنی کو سمجھے، ہمیں تو شروع سے قرآت کے ثواب حاصل کرنے پر لگایا گیا ہے، اسی کی عادت ہے
ایک دفعہ میں نے اس سے پوچھا کہ یار مدارس تو بڑی مقدس جگہ ہوتی ہیں۔ یہاں قرآن کی چھاؤں میں فضاء نور سے منور رہتی ہے ، کیا وجہ ہے کہ یہاں سب سے زیادہ بچوں کے ساتھ برے واقعات رونما ہوتے ہیں، ان کے ریپ ہوتے ہیں۔
اس نے جواب دیا کہ بھائی ہمارے مدارس میں عورت ایک شجر ممنوعہ ہے جس کا ذکر سوائے بچے پیدا کرنے کے علاوہ نہیں کیا جاتا۔ مغربی تہذیب کا ذکر ایسے کیا جاتا ہے کہ ہمیں لگتا ہے کہ اگر ہم وہاں گئے تو ایرپورٹ سے ہی ننگے دھڑنگے لوگ ہمارا استقبال کریں گے اور عورتیں ہم پر حملہ آور ہوجائیں گی۔ اس کے علاوہ کثرت اذکار اور ہر وقت ایک ہی جیسی روٹین ہمیں بہت خشک بنادیتی ہے۔ ہم اسی فضاء میں جوان ہوتے ہیں مگر جسم کی اپنی طلب موجود ہوتی ہے ۔ اس کو کسی چیز سے کم نہیں کیا جاسکتا۔ اس وجہ سے وہ بچے جن کے والدین دوسرے شہروں میں ہوتے ہیں اور ان کو مدارس میں غریب والدین چھوڑ جاتے ہیں، وہ سب سے زیادہ نشانہ بنتے ہیں۔
پھر اس نے اپنا قصہ بتایا کہ جب کوئی چھوٹا بچہ درس لینے کے لیے قریب آکر بیٹھتا تھا تو اس کے گھٹنے کے ہمارے پیر سے ٹکرانے سے بھی ہمیں جنسیت طاری ہوتی تھی
وہ سیم تن ہو ننگا تو لطف تن پہ اس کے
سو جی گئے تھے صدقے یہ جان و مال کیا ہے
میں نے پوچھا کہ جب کسی بچے کے ساتھ اس طرح کا کوئی برا واقعہ ہوجاتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ والدین پرچہ نہیں کرواتے اور معاملہ دبا دیا جاتا یے ؟
اس نے جواب دیا کہ یہ وہ غریب والدین ہیں جن کو یہ پاٹ پڑھایا جاتا ہے کہ بچے کی پیدائش روکنا مغربی تہذیب کا شعار ہے اور یہ حرام ہے۔ اللہ کے نبی کو کثرت اولاد پسند تھی۔ اس لیے یہ غریب لوگ اپنی بیوی کو کبھی “خالی پیٹ” نہیں سونے دیتے۔ لیکن جب بچہ کثرت سے ہوجاتے ہیں تو ان کی غذا اور تعلیم کا خرچہ سامنے آتا یے۔ اس سے نمٹنے کے لیے یہ معصوم بچے انہی مدارس کے متھے مارے جاتے ہیں جہاں سے بچے پیدا کرنے کی ترغیب ملی تھی۔
اب اگر قاری صاحب نے بچے سے اپنی خواہش پوری کرلی تو والدین کو سمجھایا جاتا ہے کہ قاری صاحب نے برا کام کیا یے مگر آپ بے فکر رہیں، اللہ اس سے نمٹے گا ہم اس کو اپنے مدرسے سے نکال دیں گے مگر آپ پرچہ نہ کروائیں اس سے اللہ کے نام پر قائم ادارے کی بدنامی ہوگی، لوگ قران پڑھنا بند کردیں گے، اپنے بچے مدرسے سے اٹھا لیں گے ۔ اس کا وبال آپ کے سر پر پڑے گا وغیرہ۔ اس کے علاوہ کچھ پیسہ بچے کے علاج اور والدین کی مدد کے نام پر دے دیا جاتا ہے اور اس طرح سے بات دب جاتی ہے۔ قاری صاحب کو مدرسے کی دوسری برانچ شفٹ کردیا جاتا یے اور وہ وہاں اپنا کھیل جاری رکھتے ہیں۔
میں نے پوچھا کہ یار مدارس کے بڑے بزرگ استاذہ اس طرح کے لوگوں کی سرزنش نہیں کرتے تو اس نے ہنس کر جو کچھ کہا اس کا لب لباب یہ ہے
جس نے تعلیم انا الحق دی تجھے روز الست
ہیں اسی استاد کے شاگرد اے منصور ہم
نوٹ : ادارہ کا مدرسے کے راوی کے بیان سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ 🙂
ابو جون رضا