اصحاب کہف کا واقعہ ۔ ایک جائزہ (4- آخری حصہ)

اصحاب کہف کا واقعہ جو زبان زد عام ہے وہ یہی ہے کہ کچھ نوجوانوں نے بت پرست بادشاہ کے سامنے کلمہ توحید بلند کیا اور شہر چھوڑ کر ایک غار میں جا کر چھپ گئے اور وہاں اللہ نے ان پر ایسی نیند مسلط کی جس کی وجہ سے وہ تین سو سال بعد بیدار ہوئے۔ صبح سوئے تھے اور جب اٹھے تو شام ہورہی تھی ۔ وہ یہی سمجھے کہ ایک دن یا اس سے کچھ کم وقت تک سوتے رہے۔ انہوں نے اپنے ایک ساتھی کو بازار بھیجا تاکہ وہ کچھ کھانے کو لے آئے۔ اور تاکید کی کہ چھپتے چھپاتے جانا تاکہ کسی کو خبر نہ ہو کہ ہم کہاں چھپے ہوئے ہیں۔ جب ان کا ساتھی بازار پہنچا اور اس نے کھانے کی چیزیں خرید کر پیسے دیے تو دکاندار نے سکے دیکھ کر شور مچا دیا کہ یہ آدمی تین سو سال پہلے کے سکے چلا رہا ہے۔ یقیناً اس کے ہاتھ میں کوئی خزانہ لگا ہے۔ ان۔کے ساتھی کو پکڑ کے بادشاہ کے پاس لے گئے اور وہاں اس نوجوان نے سارا قصہ بیان کر دیا ۔ جب ان کا ساتھی بادشاہ کے ساتھ غار پہنچا اور نوجوان نے اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ ہم تین سو سال سوتے رہے ہیں اور اب لوگ ان کو دیکھنے بادشاہ کے ساتھ آئے ہیں تو ان سب نے دعا کی کہ وہ مرجائیں کیونکہ اب وہ دنیا کے جھمیلوں میں نہیں پڑنا چاہتے تھے ۔ اللہ نے ان کی روح قبض کرلی ۔ بادشاہ نے جب ان کو مردہ پایا تو ان کے غار کا منہ بند کرکے اس پر مسجد تعمیر کردی۔

اب اس واقعے کو ایک دوسرے زاویے سے بھی دیکھیے.

اصحاب کہف غار میں ظالم بادشاہ کے خوف سے جا کر چھپ گئے تھے ۔ ان کا ساتھی جب کھانا لینے گیا تو وہ پکڑا گیا اور بادشاہ نے اس کو مع اس کے ساتھیوں کے غار میں ڈال کر اس کا منہ بند کردیا جس کی وجہ سے وہ اسی غار میں مر گئے۔ تین سو سال بعد اس کھوہ میں کوئی سوراخ ہوا ہوگا جس میں سے ان کے اجسام کسی نے دیکھ کر لوگوں کو خبر کی ہوگی اور پھر پورے شہر نے جو توحید پرست ہوچکا تھا، ان کو اس کھوہ میں مرے ہوئے پایا اور پھر اس کھوہ کو دوبارہ بند کر کے اس پر مسجد تعمیر کردی۔

تاریخ یعقوبی میں اس بادشاہ کا نام دسیوس لکھا ہے اور صاف لکھا ہے کہ اس کے زمانہ میں اصحاب کہف جو مرگئے تھے زمانہ طویل کے بعد ظاہر ہوئے۔ اس میں مطلق اس بات کا اشارہ نہیں ہے کہ وہ سوتے تھے اور اس کے زمانہ میں جاگے یا مرے ہوئے تھے اور زندہ ہوئے بلکہ صاف لکھا ہے کہ ظاہر ہوئے ۔

علاوہ اس کے جتنی روایتیں ہیں سب سے یہی امر ماخوذ ہوتا ہے کہ درحقیقت اصحاب کہف جب معلوم ہوئے تو وہ مرے ہوئے تھے ۔

طبری کی ایک روایت میں ہے کہ وہ زندہ ہوگئے تھے مگر جب لوگ ان کے دیکھنے کو کہف کے قریب پہنچے تو خدا نے ان کو دوبارہ مردہ کردیا یا پھر سے سلا دیا ۔ لوگ ڈر گئے اور غار کے اندر نہ جاسکے۔

دوسری روایت میں طبری نے لکھا ہے کہ بادشاہ اور اس کے لوگ جب کھوہ میں گئے تو دیکھا کہ صرف ان کے جسم موجود ہیں جو کسی طرح بگڑے نہ تھے مگر ان میں ارواح نہ تھیں۔

کامل ابن اثیر میں ایک اور بات زیادہ لکھی ہے کہ وہ زندہ تو ہوگئے تھے مگر انھوں نے دعا مانگی کہ خدا ان کو مار ڈالے اور جو لوگ ان کو دیکھنے آئے ہیں ان میں سے کوئی ان کو نہ دیکھے پس وہ فی الفور مرگئے۔

یہ تمام روایتیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ اصحاب کہف زندہ نہ تھے اور نہ کسی نے ان کو زندہ دیکھا۔

اصل بات یہ ہے کہ جب لاشیں ایسے مقام پر ہوتی ہیں جہاں ہوا کا گزر نہیں ہوتا اور لاشیں اسی طرح رکھے رکھے راکھ ہوجاتی ہیں تو وہ سوراخ میں سے ایسی ہی معلوم ہوتی ہیں کہ گویا پورے مجسم اجسام بلا کسی نقص کے رکے ہوئے ہیں۔ اسی طرح لوگوں نے ان کو دیکھا اور جانا کہ بعض لاشیں رکھی ہیں یا کچھ لوگ سو رہے ہیں۔

ایک معروف اسکالر لکھتے ہیں کہ

“دہلی میں اسی قسم کا ایک واقعہ گزرا تھا جہاں حضرت نظام الدین کی درگاہ ہے وہاں بہت پرانا قبرستان ہے۔ ایک اونچی جگہ پر ایک چبوترہ تھا اور اس کے اوپر تین قبروں کے نشان تھے۔ اتفاق سے اس چبوترہ کی ایک طرف کی دیوار میں سے کچھ پتھر گرپڑے اور چھید ہوگیا کہ اندر سے پیر دکھائی دینے لگے۔ لوگوں نے اس چھید میں سے جھانکا تو ان کو معلوم ہوا کہ قبر بہت بڑی مثل ایک مربع کوٹھری کے ہے اور تین لاشیں بالکل سفید کفن پہنے ہوئے مجسم بلا کسی نقصان کے اس میں رکھی ہوئی ہیں۔ اس کا چرچا ہوا اور بہت لوگ اس کو دیکھنے گئے اور سب نے یہی بات بیان کی۔

میرے مرحوم دوست کو اس قسم کی باتوں کی دریافت کا بہت شوق تھا ۔ وہ خود ان لاشوں کو دیکھنے گئے۔

اول انھوں نے اندر جھانک کر دیکھا تو ان کو بھی اسی طرح مجسم لاشیں معلوم ہوئیں۔ ان کو تعجب ہوا۔ انھوں نے دیوار کے دو ایک پتھر اور نکال ڈالے اور اندر جا گھسے۔

ایک عجیب بات تو یہ دیکھی کہ قبر ایک مربع کے برابر بنی ہوئی تھی اور تین لاشیں اس میں رکھی ہوئی تھیں۔ مگر سب بوسیدہ اور راکھ ہوگئی تھیں۔ لیکن کیونکہ ہوا کا گزر نہ تھا تو جہاں ان کے ہاتھ رکھے ہوئے تھے وہیں ان کے ہاتھ کی راکھ تھی اور جہاں سر رکھا تھا وہیں سر کی راکھ تھی ۔ جہاں پاؤں رکھا ہوا تھا وہیں پاؤں کی راکھ تھی۔ اور سب کے نشان معلوم ہوتے تھے۔

وہ لاشیں کاٹھ کے تخت پر رکھی گئی تھیں وہ تخت بھی بوسیدہ ہو کر اور گل کر زمین کے برابر ہوگیا تھا مگر اس کے نشان بھی راکھ میں پیوست محسوس ہوتے تھے۔ انھوں نے انگلی سے چھوا تو معلوم ہوا کہ بالکل راکھ ہے اور ہڈیوں اور راکھ کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ مگر جب سوراخ میں سے دیکھا جاتا تھا تو وہ تمام نقش جو راکھ میں قائم تھے بالکل مجسم اور مسلم لاشیں معلوم ہوتی تھیں۔

آپ خیال کریں کہ اگر ہم ایک تصویر کو ایک صندوق میں رکھ دیں اور ایسی حکمت کریں کہ کسی قدر شعاع آفتاب کی اس میں پہنچی اور اس کے پہلو میں ایک چھید کرکے اس کو دیکھیں تو وہ تصویر بالکل مجسم معلوم ہوگی۔ پس اس طرح سے اس قسم کی پرانی لاشیں جو کسی پہاڑ کے سوراخ میں سے دیکھی جاتی ہیں تو وہ مسلم معلوم ہوتی ہیں۔ اسی طرح اصحاب کہف کی لاشوں کے دیکھنے والوں کو وہ لاشیں مجسم معلوم ہوئی ہونگی ۔

کیورس متہس کے مصنف نے لکھا ہے کہ اصحاب کہف کی ہڈیاں ایک بڑے پتھر کے بکس میں بند کرکے مار سلیس کو بھیجی گئیں تھیں۔ جو اب بھی سینٹ ویکٹر کے گر جا میں دکھائی جاتی ہیں۔

اس کی تصدیق تاریخ طبری سے بھی ہوتی ہے۔

اس میں لکھا ہے کہ قتادہ نے روایت کی ہے کہ جب ابن عباس حبیب بن مسلمہ کے ساتھ جہاد پر گئے تو وہ کہف پر گزرے اور اس میں کچھ ہڈیاں تھیں۔ ایک شخص نے کہا کہ یہ اصحاب کہف کی ہڈیاں ہیں۔ ابن عباس نے کہا کہ ان کی ہڈیاں تو تین سو برس سے زیادہ ہوا کہ یہاں نہیں رہیں۔

جب اصحاب کہف اٹھے تو انھوں نے کہا کہ اپنے میں سے کسی ایک کو اپنے پاس سے چاندی کا یہ سکہ دے کر شہر بھیجو تاکہ کھانا لادے اور کسی کو خبر نہ ہو۔

اس کی تصریح قرآن مجید میں نہیں کہ وہ صرف ایک ہی دفعہ کھانالینے گیا یا اسی طرح متعدد دنوں تک کھانا لایا کرتا تھا۔ مگر تفسیر معالم التنزیل میں محمد بن اسحق کی روایت لکھی ہے کہ ” فلبثوا بذلک مسالھثوا “ یعنی وہ اسی طرح کرتے تھے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک عرصہ تک وہ اسی طرح اپنا کھانا شہر سے منگاتے رہے۔

اس کے بعد خدا فرماتا ہے کہ اس طرح ہم نے لوگوں کو ان کی خبر کردی۔ مگر اس کے بعد خدا نے یہ نہ بتایا کہ ان لوگوں نے ان کی خبر پاکر ان کے ساتھ کیا کیا ؟

مگر یہ فرمایا تاکہ وہ جان لیں کہ بیشک وعدہ اللہ کا سچا ہے اور بیشک قیامت آنے والی ہے اس میں کچھ شک نہیں۔

اس مقام پر جو بحث ہے وہ یہ ہے کہ ” یعلموا “ میں جو ضمیر ہے اس کا مرجع کون ہیں ؟ عموماً مفسرین عام لوگوں کی طرف جن کو ان کی خبر ہوگئی تھی اس کا مرجع بیان کرتے ہیں مگر لوگوں کو ان کی خبر ہوجانے سے کہ وہ پہاڑ کی کوھ میں چھپے ہوئے ہیں۔ ” ان وعد اللہ احق وان الساعۃ لاریب فیھا “ سے کیا تعلق ہے؟

اگر کہا جائے کہ ان کی خبر ملنے کا واقعہ اس وقت کا ہے جبکہ وہ ایک مدت درازتک سو کر اٹھے تھے تو اول تو ان کی مدت دراز تک سوتے رہنے کی نفی ہوچکی اور اگر بالفرض تسلیم کیا جائے تو بھی ایک مدت تک، گو کہ وہ کتنی ہی دراز ہو، سو کر اٹھنے سے اس بات کا کہ ” وعداللہ حق وان الساعۃ لاریب فیھا “ کیا ثبوت ہوسکتا ہے۔

اور اگر بالفرض وہ مرگئے ہوں جیسے کہ بعض مورخین کا قول ہے اور تین سو برس بعد پھر زندہ ہوئے ہوں اور ان کے دوبارہ زندہ ہونے کے بعد لوگوں کو خبر ہوئی ہو تو بھی ان کا دوبارہ زندہ ہونا کسی نے نہیں دیکھا تو پھر کیونکر ان لوگوں کو جنہوں نے ان کی خبر سنی تھی, قیامت یعنی مجسم اجساد کا یقین ہوسکتا تھا؟

کچھ شبہ نہیں ہے کہ ضمیر العلموا کی خوداصحاب کہف کی طرف راجع ہے کہ جب ان کو معلوم ہوا کہ لوگوں کو ان کی خبر ہوگئی تو ان کو یقین ہوا کہ اب وہ مارے جائینگے۔

پس خدا کا یہ فرمانا کہ لیعلموان وعدابدحق دن الساعۃ لاریب فیھا اشارہ اس بات کا ہے کہ وہ مارے گئے کیونکہ اس بات کا جاننا کہ وہ اللہ حق جیسا کہ موت سے ہوتا ہے اور طرح پر نہیں ہوسکتا۔

قال اللہ تعالیٰ والذین امنو وعملوا الصحلت سند خلھم جنات تجری من تحتھا الانھر خلدین فیھا ابدا وعداللہ حقاومن اصدق من اللہ قیلا “۔

پس جن مورخین کا یہ قول ہے کہ جب اس بت پرست بادشاہ کو ان کے پہاڑ کی کوھ میں چھپے ہونے کی خبر ہوئی تو اس نے اس کا منہ بند کرادیا تاکہ وہ بھوکے اور پیاسے اس میں مرجائیں اور کوھ ان کے لیے بمنزلہ قبر کے بن جائے۔ چنانچہ وہ مرگئے بہت صحیح درست معلوم ہوتا ہے اور قرآن مجید سے اسی کی تائید ہوتی ہے۔

مذکورہ بالا واقعہ کی کئی سو برس بعد پہاڑ کا وہ منہ جو بند کردیا گیا تھا ، کھل گیا اور اس میں ان کی لاشیں جو صرف ہڈیاں باقی تھیں معلوم ہوئیں اور اندر بموجب قاعدہ علم مناشر کے پوری لاشیں دکھائی دیتی ہونگی اس وقت لوگوں نے ان کی زیارت کی اور جیسے کہ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے کہ

” اسوقت آپس میں ان کے باب میں جھگڑا کرنے لگے۔ پھر انھوں نے کہا کہ ان کے اوپر کوئی مکان یعنی مقبرہ بنادیں ان کا خدا ان کے حال کو بخوبی جانتا ہے “۔

ان لوگوں نے جو ان کے کہنے والوں کے کام پر غلبہ رکھتے تھے یعنی حاکم وغیرہ انھوں نے کہا کہ اس کو قرار دینگے مسجد یعنی عبادت گاہ۔

اور انہوں اس کے اوپر معبد تعمیر کردیا”

واللہ اعلم بالصواب

سورہ کہف کی کچھ آیات کی تفسیر آج انیس رمضان 2023 کو اختتام پذیر ہوئی۔ دعا ہے کہ پروردگار اس کو اپنی بارگاہ میں قبول کرے اور اسے میری آل اولاد اور تمام لوگوں کے لیے علم نافع قرار دے.

ابو جون رضا

1

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *