اصحاب کہف کا واقعہ۔ ایک جائزہ (3)

1953 ء میں اردن کے محقق تیسیر ظبیان صاحب کو کسی طرح پتہ چلا کہ عمان کے قریب ایک پہاڑ پر ایک ایسا غار واقع ہے جس میں کچھ قبریں اور مردہ ڈھانچے موجود ہیں اور اس غار کے اوپر ایک مسجد بھی بنی ہوئی ہے۔ چناچہ وہ اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ اس غار کی تلاش میں روانہ ہوئے۔ یہ جگہ عام راستے سے ہٹ کر واقع تھی۔ اس لیے کئی کلو میٹر دشوار گزار راستہ طے کرکے وہ اس غار کے دہانے پر پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔

تیسیرظبیان صاحب کے الفاظ ہیں :

”ہم ایک اندھیرے غار کے سامنے کھڑے تھے جو ایک دورافتادہ جگہ اور ایک چٹیل پہاڑ پر واقع تھا، غار میں اس قدر اندھیرا تھا کہ ہمارا اندر داخل ہونا مشکل ہوگیا، ایک چرواہے نے ہمیں بتایا کہ غار کے اندر کچھ قبریں ہیں اور ان میں بوسیدہ ہڈیاں پڑی ہیں، غار کا دروازہ جنوب کی سمت تھا اور اس کے دونوں کناروں پر دو ستون تھے جو چٹان کو کھود کر بنائے گئے تھے۔ میری نظر اچانک ان ستونوں پر بنے ہوئے نقوش پر پڑی تو اس پر بیزنطی نقوش نظر آرہے تھے، غار کو ہر طرف سے پتھروں کے ڈھیروں اور ملبے نے چھپایا ہوا تھا اور یہاں سے تقریباً سو میٹر کے فاصلے پر ایک بستی تھی جس کا نام ” رجیب “ تھا۔ “

تیسیرظبیان صاحب نے اپنی تحقیق جاری رکھی، محکمہ آثار قدیمہ کو متوجہ کیا بالآخر ایک ماہر اثریات رفیق رجانی صاحب نے ماہرانہ تحقیق کے بعد یہ رائے ظاہر کی کہ یہی غار اصحابِ کہف کا غار ہے، چناچہ 1961 ء میں اس کی کھدائی کا کام شروع ہوا تو اس رائے کی تائید میں بہت سے قرائن و شواہد ملتے چلے گئے جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں :

1۔ اس غار کا دہانہ جنوب کی طرف ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس پر قرآن کریم کی یہ آیت پوری طرح صادق ہے۔
وَتَرٰی الشَّمْسَ اِذَا طَلَعَتْ تَزَاوَرُعَنْ کَـھُفِھِمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَاِذَا غَرَبَتْ تَقْرِضْھُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَھُمْ فِیْ فَجْوَۃٍ مِّنْہْ ۔

اور سورج جب طلوع ہوتا تو ان کے غار سے دائیں جانب جھکتا ہوا گزرتا اور جب غروب ہوتا تو ان کے بائیں جانب سے کترا کر گزرتا اور یہ لوگ اس غار کے کشادہ حصے میں تھے۔اس غار میں صورتحال یہی ہے کہ دھوپ کسی وقت اندر نہیں آتی بلکہ طلوع و غروب کے وقت دائیں بائیں سے گزر جاتی ہے اور غار کے اندر ایک کشادہ خلا بھی ہے جس میں ہوا اور روشنی آرام سے پہنچتی ہے۔

2۔ قرآن کریم نے یہ بھی ذکر فرمایا ہے کہ بستی کے لوگوں نے اس غار کے اوپر مسجد بنانے کا ارادہ کیا تھا۔ چناچہ اس غار کے ٹھیک اوپر کھدائی کرنے اور ملبہ ہٹانے کے بعد ایک مسجد بھی برآمد ہوئی ہے جو قدیم رومی طرز کے پتھروں سے بنی ہوئی ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ یہ شروع میں بازنطینی طرز کا ایک معبد تھا اور عبدالملک بن مروان کے زمانے میں اسے مسجد بنادیا گیا۔

3۔ عصر حاضر کے بیشتر محققین کا کہنا یہ ہے کہ وہ مشرک بادشاہ جس کے ظلم و ستم سے تنگ آکر اصحابِ کہف نے غار میں پناہ لی تھی ٹراجان تھا جو 98 ء سے 117 ء تک حکمران رہا ہے اور اس کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ بت پرستی سے انکار کرنے والوں پر سخت ظلم ڈھاتا تھا، تاریخ سے یہ بھی ثابت ہے کہ ٹرا جان نے 106 ء میں شرق اردن کا علاقہ فتح کرلیا تھا اور وہ بادشاہ جس کے عہد میں اصحابِ کہف بیدار ہوئے اس کا نام جدید محققین تھیوڈوسیس بتاتے ہیں جو پانچویں صدی کے آغاز میں گزرا ہے۔دوسری طرف اس نئے دریافت شدہ غار کے اندر جو سکے پڑے ہوئے ملے ہیں ان میں سے کچھ ٹرا جان کے زمانے کے ہیں۔ جس سے اس خیال کو بہت تقویت ملتی ہے کہ یہی اصحابِ کہف کا غار ہے۔

4 ۔ قرآن کریم نے اصحابِ کہف کو ” اصحاب الکہف والرقیم “ (غار اور رقیم والے) کہا ہے، رقیم کیا چیز ہے ؟ اس کی تشریح میں مختلف آراء بیان کی جاتی ہیں لیکن بیشتر محققین کا خیال یہ ہے کہ رقیم اس بستی کا نام تھا جس میں ابتداً یہ حضرات آباد تھے۔ اب جس جگہ یہ غار واقع ہے وہاں سے نکل کر سو میٹر کے فاصلے پر ایک چھوٹی سی بستی ” رجیب “ کہلاتی ہے۔ رفیق الدجانی صاحب کا خیال یہ ہے کہ یہ ” رقیم “ کی بگڑی ہوئی شکل ہے کیونکہ یہاں کے بدو اکثر قاف کو جیم اور میم کو با سے بدل کر بولتے ہیں۔
چنانچہ اب حکومت اردن نے اس بستی کا نام سرکاری طور پر ” رقیم “ ہی کردیا ہے بعض قدیم علماء جغرافیہ نے بھی رقیم کی بستی کو عمان کے قریب بتایا ہے۔

5۔ تیسیرظبیان صاحب نے بعض روایات نقل کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ قرون اولیٰ کے مسلمان اسی علاقے کے کسی غار کو اصحابِ کہف کا غار سمجھتے تھے۔ حضرت عبادہ بن صامت ( رض) کے بارے میں مروی ہے کہ خلہفہ اول نے انھیں بادشاہ روم کے پاس ایلچی بناکر بھیجا تو وہ راستے میں شام و حجاز کے راستے پر ایک پہاڑ سے گزرے جس کا نام جبل الرقیم تھا، اس میں ایک غار بھی تھا جس میں کچھ ڈھانچے تھے اور وہ بوسیدہ بھی نہیں ہوئے تھے۔

تفسیر قرطبی میں حضرت ابن عباس ( رض) کے بارے میں بھی مروی ہے کہ وہ اس غار سے گزرے تھے اور اسے اصحابِ کہف کا غار قرار دیا تھا۔

فتوح الشام میں واقدی نے بھی حضرت سعید بن عامر کا ایک طویل قصہ لکھا ہے کہ وہ شام کی طرف جہاد کے لیے روانہ ہوئے اور راستہ بھول گئے، بالآخر بھٹکتے بھٹکتے جبل الرقیم کے پاس پہنچے تو اسے دیکھ کر پہچان گئے۔ اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ یہ اصحابِ کہف کا غار ہے، چناچہ وہاں نماز پڑھ کر عمان شہر میں داخل ہوئے۔

(موقع اصحاب الکہف ص 46، 47، 103)

(جاری)

ابو جون رضا

3

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *