اصحاب کہف کا واقعہ ۔ ایک جائزہ (1)

2007 میں والدہ کے ساتھ میں نے سعودی عرب اور شام کا سفر کیا تھا۔شام میں دمشق میں ایک غار جس کے متعلق یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ اصحاب کہف کا غار ہے۔ وہاں جانا ہوا تھا۔ غار ایک پہاڑی پر واقع ہے۔ اور اتنی اونچائی پر ہے کہ وہاں پہنچ کر نیچے کی طرف نگاہ ڈالی جائے تو سارا دمشق شہر نظر آتا ہے۔

ایک کوھ میں ہمیں لے جایا گیا۔ جہاں مشکل دو یا تین آدمی کھڑے ہوسکتے تھے۔ وہاں ہم نے نماز ادا کی۔ ایسی کوئی نشانی ہمیں نظر نہیں آئی جس کو دیکھ کر ہمیں پتا چلے کہ یہ کوئی پرانا قدیم غار ہے جہاں صدیوں پہلے کچھ لوگ آکر چھپے تھے۔ بلکہ وہاں دیواروں پر چاکنگ سے پتا چل رہا تھا کہ پاکستانی یہاں آئے ہیں کیونکہ اردو میں لکھا ہوا ملا کہ “2007 ۔ عرب سے ایک فیملی یہاں آئی تھی”۔ اور پھر اس فیملی کے ممبران کے نام لکھے تھے ۔ اس کے علاوہ عربی اور فارسی میں بھی نجانے کیا کیا لکھا تھا

قران کریم میں سورہ کہف کی آیت نمبر 8 سے 26 تک اصحاب کہف کی داستان بیان ہوئی ہے۔ ان آیات میں اصحاب کہف کے ہدایت یافتہ ہونے، خدا پر ایمان رکھنے، کافروں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے، غار میں پناہ لینے، نیند کے طاری ہونے، لوگوں کے ساتھ ان کی گفتگو اور آخر کار حقیقت کے آشکار ہونے کی طرف اشارہ کرنے کے ساتھ ساتھ کافروں کے پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ اس مسئلے میں ہونے والی گفتگو کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

“حَسِبتَ اَنَّ اَصحبَ الکهفِ والرَّقیمِ…” یہاں پر مفسرین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا اصحاب کہف اور اصحاب رقیم ایک ہی گروہ کے دو نام ہیں یا دو علیحدہ گروہ ہیں۔ اگر ایک ہے تو اصحاب رقیم کیلئے کوئی الگ شأن نزول کی ضرورت نہیں لیکن اگر جدا ہیں تو علیحدہ شأن نزول کی ضرورت ہے۔ لفظ رقیم کے بارے میں بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ اس غار کے نزدیک ایک دیہات کا نام ہے.

بحار الأنوار جلد 14 میں حضرت علی سے منقول ایک حدیث کے مطابق جس شہر میں اصحاب کہف ساکن تھے اس کا نام اِفِسوس (اِفِسُس) ہے۔ یہ شہر (ایشیائے صغیر) آناتولی کے ایونیا کے شہروں میں سے ایک تھا۔ اس وقت اس شہر کے صرف کھنڈرات موجود ہیں اور موجودہ ترکی کے صوبہ ازمیر کے شہر سلجوک کے جنوب میں تین کیلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس شہر سے ایک کیلومیٹر کے فاصلے پر ایک غار ہے، ترکی کے لوگ اصحاب کہف کے غار کے عنوان سے اس کی زیارت کرتے ہیں۔اس غار کے اندر سینکڑوں قبروں کے نشان دیکھے جا سکتے ہیں۔

اردن کے دارالخلافہ امان سے سات کیلومیٹر کے فاصلے پر دو شہروں رقیم (رجیب) اور ابوعلند کے درمیان ایک غار ہے جس کے اوپر ایک مسجد بنائی گئی ہے جس کے متعلق بعض آثار قدیمہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ غار اصحاب کہف کا غار ہے۔اس غار کے بارے میں ایک کتاب بھی لکھی گئی ہے جس کا نام “اکتشاف کہف اہل الکہف” ہے۔

اسی طرح فلسطین کے شہر بتراء میں واقع ایک غار، شمالی یورپ کے شبہ جزیرہ اسکنڈے نیویہ میں واقع غار اور منطقہ قفقاز کے شہر نخجوان میں واقع غار کو بھی آثار قدیمہ کے ماہرین اصحاب کہف کے غار کے عنوان سے یاد کرتے ہیں۔

علامہ طباطبائی نے تفسیر المیزان کی جلد 13 میں خیال ظاہر کیا ہے کہ ترکی کے شہر اِفِسوس (تارسوس) میں موجود غار پر اصحاب کہف کے غار کا اطلاق زیادہ مناسب لگتا ہے۔

(جاری)

ابو جون رضا

2

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *