2019 میں ممبئی انڈیا میں ایک ستائیس سالہ نوجوان رافیل سیموئیل نے والدین پر مقدمہ کرنے کا اعلان کیا۔ اعلان اس لحاظ سے دلچسپ تھا کہ رافیل کو یہ اعتراض تھا کہ ان کے والدین نے ان کو کیوں پیدا کیا؟ حیرت ہے کہ ستائیس سال بعد ان کو خیال آیا کہ ” مجھے کیوں نکالا؟ “
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ دنیا میں اتنے مسائل کی بھرمار ہے کہ بچے پیدا کرنے کا فیصلہ زیادہ تر غلط ہی ثابت ہوتا ہے۔ بچہ پیدا تو ہوجاتا ہے مگر مسائل اس کا استقبال کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ انگلینڈ میں رہائشی ایوی ٹوم بیز نے اپنی والدہ کے ڈاکٹر پر دوران حمل انہیں درست مشورہ نہ دینے پرمقدمہ کیا تھا اور موقف اپنایا تھا کہ اگرڈاکٹر ان کی ماں کو صحیح مشورہ دیتا تو وہ پیدا ہی نہیں ہوتیں کیونکہ ڈاکٹرکو یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ انہیں کمرکی پیچیدہ بیماری ہوسکتی ہے اور ڈاکٹرکے مشورے پران کی والدہ اسقاط حمل کی طرف جاسکتی تھیں۔
20 سال کی ایوی ٹوم بیز کا موقف عدالت نے درست تسلیم کیا کیونکہ وہ اپنی پیدائش سے کمر کی شدید تکلیف میں مبتلاء ہیں۔ ان کو ہرجانے کے طور پر ایک خطیر رقم ملے گی۔
پیدائش کا معاملہ انسان کے ہاتھ میں اس لحاظ سے نہیں ہے کہ اس سے نہیں پوچھا جاتا کہ پیدا کیا جائے یا نہیں؟ اس کے بعد والدین ہی ابتدائی طور پر غذا کا انتخاب کرتے ہیں۔ پھر شروعات میں گھر سے مسلک، مذہب اور رسومات تحفے میں ملتی ہیں۔ اگر والدین بہت دین دار ہیں تو معبد میں عبادت، مخصوص لباس ، مذہبی رسومات، چہرہ کی ہئیت اور پردہ وغیرہ جبری طور پر نافذ کیا جاتا ہے۔
پھر معاشرے کا جبر سامنے آتا ہے۔ بچہ وہ کتابیں پڑھتا ہے جو معاشرے میں رائج ہیں۔ میں ایسے والدین کو جانتا ہوں جنہوں نے اسکول میں بچے کو سات سال کی عمر تک داخل نہیں کروایا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کو لگتا تھا کہ آج کل اسکولوں کا ماحول اسلامی نہیں ہے۔ وہ گھر پر ہی مختلف ٹیچرز کو بلا کر بچے کو ٹیوشن پڑھواتے تھے جس میں حفظ قران کا ٹیچر بھی شامل تھا کیونکہ بچے کی دادی کی خواہش تھی کہ پوتا قرآن حفظ کرے۔
حضرت علی سے ایک روایت منسوب کی جاتی ہے کہ کسی شخص نے ان سے جبر و اختیار کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ اپنی ایک ٹانگ اٹھاؤ ، سائل نے اٹھائی، پھر کہا کہ دوسری اٹھاؤ تو وہ عاجز رہا۔ آپ نے فرمایا کہ پہلی ٹانگ اٹھانا اختیار اور دوسری نہ اٹھا سکنا جبر ہے۔
(جاری)
ابو جون رضا