حضرت علی کی بہن کا نام فاختہ تھا اور وہ بعد میں ام ہانی کے نام سے مشہور ہوئیں۔ ان کو ہند بھی کہا جاتا تھا۔
حضرت ابوطالب کے گھر نبی کریم نے پرورش پائی۔ ان کو جناب ام ہانی سے انسیت تھی۔
حضرت ابنِ عبّاسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم نے حضرت ابوطالب کو اُمّ ِ ہانی سے نکاح کا پیغام دیا تھا۔
جس پر حضرت ابوطالب نے کہا
’’ بھتیجے ! مَیں بنو مخزوم کو زبان دے چُکا ہوں۔ قریبی قرابت داری کی بنا پر اب اُنہیں منع کرنا مناسب نہ ہوگا‘‘
(طبقات ابنِ سعد 343/8)
یہ رسول اکرم کی جناب خدیجہ سے شادی سے پہلے کی بات ہے۔ شادی ایک عام سماجی عمل ہے اس کا عرش پر ہونا، اللہ کا رشتہ بھیجنا اور جبرائیل کا رشتہ لانا جیسی بچکانہ باتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
جناب ام ہانی کا شوہر ہبیرہ اسلام کا بہت بڑا دشمن تھا۔ ہبیرہ بن وہب شاعر تھا اس وجہ سے مسلمانوں کی ہجو کہتا تھا۔ اور ان کو تنگ کرتا تھا۔جنگوں میں بھی پیش پیش رہا۔ فتح مکہ کے وقت بھاگ کر نجران چلا گیا۔ اور پھر جناب ام ہانی نے قبول اسلام کیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اسلام قبول کر چکی تھیں مگر اپنے شوہر کی وجہ سے اس کو چھپایا ہوا تھا۔
جناب ام ہانی نے اپنے دو دیوروں کو فتح مکہ کے موقع پر اپنے گھر میں پناہ دی تھی۔ حضرت علی نے جب ان کے قتل ارادہ کیا تو آپ آڑے آ گئیں اور پھر رسول اکرم کے پاس جا کر ان سے امان طلب کی تو آپ نے فرمایا، ” جس کو تم نے امان دی اس کو ہم نے بھی امان دی”
سیرت کی کتابوں کے حوالے سے معراج کا واقعہ ام ہانی کے گھر ہی پیش آیا۔ اس رات نبی کریم ام ہانی کے گھر سوئے ہوئے تھے۔ لیکن صحیحین کے مطابق یہ واقعہ جب پیش آیا تو رسول اکرم خانہ کعبہ میں سوئے میں سوئے ہوئے تھے۔
حضرت اُمّ ِ ہانی فرماتی ہیں کہ
’’ رسول اکرم شبِ معراج میرے گھر مہمان تھے۔ آپؐ نے عشاء کی نماز پڑھی اور سو گئے۔ صبح فجر کی نماز کے بعد آپؐ نے واقعۂ معراج سُنایا اور باہر تشریف لے جانے کے لیے اُٹھے، تو مَیں نے عرض کیا
’’ یارسول اللہؐ! جس بات کا تذکرہ آپؐ نے مجھ سے فرمایا ہے، اس کا باہر لوگوں میں تذکرہ نہ کیجیے گا، وہ آپؐ کی اِس بات کا یقین نہیں کریں گے، وہ آپؐ کی تکذیب کریں گے اور اذیّت دیں گے۔‘‘
اِس پر حضور نے فرمایا
’’اللہ کی قسم! مَیں اِس بات کو چُھپا نہیں سکتا۔ مَیں ضرور ضرور اُن سے بیان کروں گا‘‘
(سیرتِ رسولِ پاکؐ، روایت محمّد بن اسحاق صفحہ299، تاریخِ ابنِ کثیر، جلد3 ،صفحہ 127،طبقات ابنِ سعد 186/1)۔
اس واقعے کی تصدیق سب سے پہلے حضرت ابوبکر نے کی۔ ان کے مطابق جب میں وحی پر یقین کرسکتا ہوں تو یہ تو معمولی بات ہے۔
ان روایات سے اس دور کے حالات کا تجزیہ کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ایک تو یہ کہ حضرت ابو طالب کی کوئی اولاد پیدائشی مسلمان نہیں تھی۔ یہ سب نبی کریم کی دعوت کے بعد ایمان لائے۔ دوسرا یہ کہ حضرت ابو طالب کو بھی نہیں پتا تھا کہ رسول اکرم پر وحی آئے گی اور وہ نبی بنیں گے ورنہ اپنی بیٹی کے رشتے سے انکار نہیں کرتے۔
دوسرا یہ کہ ام ہانی کے شوہر کے مسلمانوں کو تنگ کرنے کے باوجود ان کا رشتہ ہبیرہ سے ختم نہیں کیا گیا اور ام ہانی نے اپنے اختیار سے فتح مکہ پر اسلام قبول کیا۔
تیسرا یہ کہ جناب ام ہانی کو بھی معراج کے واقعے پر یقین نہیں تھا جبھی انہوں نے رسول اکرم کو روکا کہ یہ بات لوگوں کو نہ بتائیں کیونکہ وہ مزاق اڑائیں گے
جو معروضی حالات نبی کریم کو پیش آئے وہ سب انبیاء کو مختلف انداز میں پیش آتے رہے اور لوگ ان کی دعوت سن کر مختلف انداز میں ردعمل دکھاتے رہے۔
نبی کے گزر جانے کے بعد لوگ ان سے یا ان کی فیملی سے مافوق الفطرت باتیں منسوب کردیتے تھے اور پھر لوگ خدا کوچھوڑ کر واپس بتوں کی جگہ ان کو پوجنے لگتے تھے۔
ابو جون رضا
سر مختصر انداز. میں اچھا تجزیا کیا ہے
بہترین تجزیہ