سورہ الانشرح پر ایک نظر

بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ

اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ (1)
کیا ہم نے آپ کا سینہ نہیں کھول دیا۔

وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ (2)
اور کیا آپ سے آپ کا وہ بوجھ نہیں اتار دیا۔

اَلَّـذِىٓ اَنْقَضَ ظَهْرَكَ (3)
جس نے آپ کی کمر جھکا دی تھی۔

وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْـرَكَ (4)
اور ہم نے آپ کا ذکر بلند کر دیا۔

فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا (5)
پس بے شک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔

اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا (6)
بے شک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔

فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ (7)
پس جب آپ فارغ ہوں تو (عبادت میں) محنت کیجیے۔

وَاِلٰى رَبِّكَ فَارْغَبْ (8)
اور اپنے رب کی طرف دل لگائیے۔

مختصر تفسیری نکات :

اہلسنت کے بعض مفسرین کے نزدیک پہلی آیت میں شق صدر کے واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ لیکن محققین کے نزدیک شرح صدر کو شق صدر سے منسوب کرنا کمزور بات ہے۔ اہلسنت شق صدر کو صحیحین میں روایت کی وجہ سے قبول کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ معاملہ کسی اور نبی کے ساتھ پیش نہیں آیا۔

دوسری آیت میں بار نبوت کے بوجھ کو ہلکا کرنے کی بات کی گئی ہے۔ اور یہ بھی احتمال ظاہر کیا گیا ہے کہ نبی کریم چالیس سال کی عدم اطاعت اور عبادتوں سے غافل رہنے پر دکھی رہتے تھے، اس پر ان کو تسلی دی گئی کہ آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، آپ سے اس ضمن میں مواخذہ نہیں ہوگا۔ ایک دوسرا احتمال نبی کریم سے ترک اولی کی باز پرس کے دور کرنے کا بھی ہے ۔

ہر مشکل کے ساتھ آسانی کے جملے کو اس سورہ میں دو مرتبہ تکرار کی علت پر مفسرین نے بہت مباحث کیے ہیں۔ لیکن قابل اطمینان بات کوئی بھی بیان نہیں کرسکا ہے۔

زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ تاکید کے طور دوبارہ جملہ دہرایا گیا ہے۔

ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ بعض لوگوں کی پوری زندگی مشکلات میں گزر جاتی ہے اور کوئی آسانی دیکھنے میں نہیں آتی۔

اس کے جواب میں کہا گیا ہے کہ اس آیت میں ایک عمومی غالب مشاہدہ بیان کیا گیا ہے۔ کلیہ خاص یا حکم نقل نہیں کیا گیا۔

رسول اکرم کا ذکر بلند ہونے کی بشارت اس مکی سورہ کے ذریعے دی گئی۔ مکہ میں مشکلات تھیں مگر حج کے موقع پر آپ کا پیغام مکہ سے نکل کر مدینے تک گیا اور آج ہر ملک میں پانچ وقت کی اذان میں رسول اکرم کا ذکر اللہ کے ذکر کے ساتھ ساتھ بلند ہوتا نظر آتا ہے۔

جب فارغ ہوجائیے تو خود کو مشقت میں ڈالیے۔

آیت اللہ جواد مغنیہ تفیسر کشاف جلد 7 میں لکھتے ہیں کہ

“یہاں ایک اشارہ ضروری ہے کہ بعض شرپسند عناصر جو تشیع کا دعوی کرتے ہیں، اس آیت میں وارد فانصب کی تفسیر امام علی کے منصب خلافت پر فائز ہونے کے حوالے سے کرتے ہیں( یعنی جب فارغ ہوجاؤ تو علی کو نصب کردو)۔ ان کے اس قول کی رد میں صاحب مجمع البیان کے مصنف جو شیعہ امامیہ کے یہاں شیخ تفسیر کا درجہ رکھتے ہیں کا فرمان ہی کافی ہے کہ انصب کا معنی تھکن ہے یعنی آپ اللہ کی راہ میں راحت کے ساتھ نہیں بلکہ جدوجہد کے ساتھ کوشش فرمائیں”

کمال حیرت ہے کہ آیت اللہ محسن نجفی اور حافظ فرمان علی نے اس مکی سورت کی ایسی ہی عجیب و غریب تفسیر کی ہے۔ جبکہ ذیشان حیدر جوادی نے اہنے ترجمہ قران کے حاشیہ پر بس اتنا لکھا کہ فانصب سے نصب کرنا مراد لینا صحیح نہیں ہے۔

اور اپنے رب کی طرف راغب ہوجائیں۔

آیت اللہ جواد مغنیہ لکھتے ہیں

” یعنی اپنے دل کو کسی اور جانب ہرگز متوجہ نہ فرمائیں اور اللہ کے سوا کسی سے مدد نہ مانگیں۔

رسول اکرم کا ارشاد ہے

جب بھی مانگو اللہ سے ہی مانگو اور جب بھی مدد چاہو تو اللہ سے ہی چاہو اور جان لو کہ اگر پوری انسانیت اور جن اکھٹے ہوکر تمہیں فائدہ پہنچانا چاہیں تو وہ تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے سوائے اس چیز کے کہ جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دی ہے اور اگر سب تمہیں نقصان پہنچانے کے لیے اکھٹے ہوجائیں تو بھی تمہیں کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے سوائے اس کے جو اللہ نے تمہارے مقدر میں لکھ دیا ہے”

(تفسیر کاشف جلد 7 ، صفحہ 644-645)

اِسی آخری ہدایت کی تعمیل کا اہتمام تھا کہ آخر دور حیات میں آپ کا انہماک عبادت الٰہی میں بہت بڑھ گیا تھا۔ بعض لوگوں نے آپ کا یہ حال دیکھ کر سوال کیا کہ حضور آپ کے تو تمام اگلے پچھلے گناہ بخشے جا چکے ہیں تو آپ عبادت میں اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں؟ آپ نے جواب میں فرمایا: ’افلا اکون عبدًا شکورًا‘ (تو کیا میں اپنے رب کا شکر گزار بندہ نہ بنوں*)! ‘‘

(تدبرقرآن۹/ ۴۲۹)

دعا ہے پروردگار ہمیں قران کریم کو سمجھنے کی توفیق عنایت فرمائے

ابو جون رضا

1

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *