عورت ، نہج البلاغہ اور عجیب روایات

نہج البلاغہ کو سید رضی نے مرتب کیا تھا اور یہ امیر المومنین امام علی کے خطبات، خطوط اور کلمات قصار کا مجموعہ ہے ۔ اگرچہ کہ یہ پر مغز کتاب ہے مگر یہ بھی اغلاط سے خالی نہیں ہے۔ عورتوں کے حوالے سے اس میں کچھ عجیب و غریب روایات پائی جاتی ہیں ۔ جن کا انتساب امام علی سے کرنا اشکال سے خالی نہیں ہے۔

ان روایات پر غور کیجیے

اَلْمَرْاَةُ شَرٌّ كُلُّهَا، وَ شَرُّ مَا فِیْهَاۤ اَنَّهٗ لَابُدَّ مِنْهَا.
عورت سراپا برائی ہے اور سب سے بڑی برائی اس میں یہ ہے کہ اس کے بغیر چارہ نہیں۔

الْمَرْأَةُ عَقْرَبٌ حُلْوَةُ اللَّسْبَةِ.
عورت ایک ایسا بچھو ہے جس کے لپٹنے میں بھی مزہ آتا ہے .

نہج البلاغہ کے خطبہ 78 میں لکھا ہے

“اے لوگو ! عورتیں ایمان میں ناقص ، حصوں میں ناقص اور عقل میں ناقص ہوتی ہیں ، نقصِ ایمان کا ثبوت یہ ہے کہ ایمان کے دَور میں نماز اور روزہ انہیں چھوڑنا پڑتا ہے ۔ اور ناقص العقل ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہوتی ہے اور حصہ و نصیب میں کمی یوں ہے کہ میراث میں ان کا حصہ مردوں سے آدھا ہوتا ہے ۔ بُری عورتوں سے ڈرو۔ اور اچھی عورتوں سے بھی چوکنا رہا کرو۔ تم ان کی اچھی باتیں بھی نہ مانو تاکہ آگے بڑھ کر وہ بری باتوں منوانے پر نہ اتر آئیں”

عجیب روایات ہیں ۔ جس شخص کے گھر میں جناب سیدہ اور بی بی زنیب جیسی خواتین ہوں وہ کیا لوگوں کے درمیان عورت کا ذکر اس حقارت سے کر سکتا ہے؟

جس گھرانے کی عورتیں مرد و زن دونوں کے لیے نمونہ عمل ہوں اس گھرانے کے بلیغ ترین انسان کا اس طرح کی گفتگو کرنا بعید ہے۔

جب کہ قران کریم نے مرد اور عورت دونوں کو یکساں مخاطب کیا ہے اور کہا ہے

اِنَّا خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ اَمۡشَاجٍ ٭ۖ نَّبۡتَلِیۡہِ فَجَعَلۡنٰہُ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا
ہم نے انسان کو ملے جلے نطفہ سے پیدا کیا تاکہ اسے آزمائیں تو ہم نے اسکو سنتا دیکھتا بنایا۔

اِنَّا ہَدَیۡنٰہُ السَّبِیۡلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوۡرًا۔
یقینًا ہم ہی نے اسے رستہ بھی دکھا دیا۔ اب خواہ شکرگذار ہو خواہ ناشکرا۔

(سورہ دھر)

ایک جگہ ہمیں امام علی کا ہی قول ملتا ہے جو آپ نے اپنے فرزند سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ

إِنَّمَا قَلْبُ‏ الْحَدَثِ‏ كَالْأَرْضِ الْخَالِيَةِ مَا أُلْقِيَ فِيهَا مِنْ شَيْ‏ءٍ قَبِلَتْهُ

بے شک (بچے کا) دل خالی زمین کی مانند ہوتا ہے، جو چیز اس میں ڈالی جائے اسے قبول کر لیتا ہے

(بحار الأنوار، جلد ۱، ص۲۲۳)

یہاں پر عورت و مرد کی تخصیص نہیں ہے۔

ایک اور جگہ نہج البلاغہ میں ہی آپ نے ارشاد فرمایا

لاَ غِنَى كَالْعَقْلِ، وَلاَ فَقْرَ كَالْجَهْلِ، وَلاَ مِيرَاثَ كَالاْدَبِ، وَلاَ ظَهِيرَ كَالْمُشَاوَرَةِ .

عقل سے بڑھ کر کوئی ثروت نہیں اور جہالت سے بڑھ کر کوئی بے مائیگی نہیں .ادب سے بڑھ کر کوئی میراث نہیں اور مشورہ سے زیادہ کوئی چیز معین و مددگار نہیں .

اگر عورت کا پورا وجود شر ہے تو پھر اس کا حساب کتاب کیسے ہوگا؟

اگر بچہ پیدا کرنے کے لیے عورت کی ضرورت ہے اور اس کے بغیر چارہ نہیں ہے تو یہ معاملہ تو خود مرد پر بھی صادق آتا ہے

اگر عورت بچھو ہے اور اس سے لپٹنے میں مزا ہے تو یہ مزا تو خاندان رسالت سے لیکر تمام انبیاء نے بھی (نعوذباللہ) اٹھایا ہے۔

اگر عورت کو حصہ میراث میں آدھا ہے تو اس کو کمانے اور گھر چلانے کی معاشی ذمہ داری سے نجات دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ عورت کو باپ کی طرف سے ایک حصہ ملتا ہے، شوہر کی طرف سے ایک حصہ ملتا ہے یہاں تک کہ اسلام نے ماں کے پیروں تلے جنت بیان کرکے اولاد کو بھی پابند کیا یے کہ اس کو ناراض نہ کریں ۔

آج کل کے زمانے میں عورت بھی معاشی ذمہ داریوں میں مرد کے شانہ بشانہ ہے تو کیسے اس کی عقل کو آدھا قرار دیا جاسکتا ہے؟

اگر عورت کے ایمان میں کمی کی وجہ یہ ہے کہ وہ مخصوص ایام میں نماز نہیں پڑھتی تو یہ بھی اطاعت الہی ہے۔ اگر خدا یہ حکم دیتا کہ ان ایام میں بھی نماز معاف نہیں یے تو کیا پھر بھی عورت کے ایمان کو آدھا قرار دیا جاتا؟

دعا ہے پروردگار ہمیں دین کو سمجھنے کی توفیق عنایت فرمائے اور ہمارے شعور کو بلند کرے تاکہ ہم بہتر طور پر دین کو سمجھ سکیں۔

ابو جون رضا

2

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *