تقلید کا مسئلہ

پاکستان میں وسائل الشیعہ کا ترجمہ ہوچکا ہے۔ جس میں کتب اربعہ سے لیکر دوسری آحادیث کی کتابیں بھی جمع ہیں

یہ بہت بڑا کام ہے جو نجفی صاحب نے کیا ہے۔ میری معلومات کے مطابق یہ ابھی تک فارسی میں ترجمہ نہیں ہوا ہے۔

تقلید جاہل کا عالم کی طرف رجوع کرنا ہے۔

فروعی معاملات میں مجتہد سے کوئی مسئلہ پوچھا جاتا ہے اور وہ اپنی استنباط کی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے جواب دیتا ہے۔

قران کریم قطعی الدلالتہ ہے اور احادیث چاہے کتنی ہی قوی سند سے وارد ہوں بہرحال ظنی رہتی ہیں ۔ یہ قول راوی ہے جس پر ہم بھروسہ کرتے ہیں۔

اہل سنت کی بنسبت اہل تشیع میں اجتہاد کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ اور یہ بڑی نعمت ہے۔

ایک عام آدمی کی حیثیت سے مجھے کوئی مسئلہ پیش آتا ہے تو میرے پاس دو راستے ہیں۔

ایک یہ میں اپنی عقل پر بھروسہ کروں۔ اور جتنی میری دینی نالج ہے اس کو ذہن میں لاکر سوچوں اور جس طرف باطنی رسول رہنمائی کرے، اس پر عمل کروں

فرض کرتے ہیں کہ اس مسئلہ کا حل میری عقل نے درست نکالا ہے۔

اس کا پتا کیسے چلے گا؟ جب میں خدا کی بارگاہ میں حاضر ہونگا

اس مسئلہ پر ہمارے تقلیدی بھائی لوگوں کو پریشان کرتے ہیں کہ تمہارے سارے اعمال اکارت ہوجائیں گے ۔ تم جہنم میں جاو گے وغیرہ۔

یہ طریقہ درست نہیں ہے۔

اگر دیکھا جائے تو انسان کسی بھی مسئلہ پر دینی کتب یا قران کی طرف ہی رجوع کر رہا ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے اللہ اس کو جہنم میں ڈال دے؟

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ انسان کسی عالم سے مسئلہ پوچھ لے

اہل سنت کے یہاں رسائل عملیہ گھر گھر موجود نہیں ہوتا اس وجہ سے اکثر اوقات سیدھے سادھے لوگ کسی بھی مولوی یا بعض اوقات کسی بھی مذہبی باتیں کرنے والے شخص سے مسئلہ پوچھ لیتے ہیں۔

ائمہ کے ادوار میں لوگ زیادہ تر مشہور لوگوں سے مسئلہ پوچھتے تھے۔ جیسے حج کے موقع پر ابن عباس سے لوگوں کی ایک طویل قطار نے مسائل پوچھے انہوں نے ایک شخص سے پوچھا کہ تم کہاں کے رہائشی ہو تو اس نے جگہ کا نام بتایا تو ابن عباس نے کہا کہ تمہارے پاس تو سعید ابن جبیر موجود ہیں۔ تم ان سے مسئلہ پوچھو۔ سعید ابن جبیر کے متعلق ملتا ہے کہ انہوں نے امام زین العابدین سے کسب فیض حاصل کیا تھا۔ اسی طرح امام بعض علاقوں کی اپنے خاص شاگردوں کو بھیج دیتے تھے کہ مسجد میں مسائل بیان کریں۔

اہل علم میں ایک بحث موجود ہے کہ کیا رسول اکرم نے اجتہاد کیا تھا ؟ اہل تشیع اس بات کو تسلیم نہیں کرتے جبکہ اہل سنت اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ بعض معاملات میں جب وحی الہی نہیں آئی تو رسول اکرم نے اپنی عقل سے فیصلہ کیا تو اجتہاد کوئی بری چیز نہیں ہے اس کو ہمارے تقلیدی بھائیوں نے غلو کی حد تک لازم قرار دیکر لوگوں کو ڈرایا ہوا ہے

ہمارے تقلیدی بھائی اعلم کی شرط لگاتے ہیں۔ جبکہ کیسے پتا چلے گا کہ پوری دنیا کے شیعہ مجتہدین نے کچھ خاص علماء کو سب سے اعلم قرار دیا یے؟

جتنے مسائل وقت کے حساب سے بڑھ گئے ہیں۔ اس لحاظ سے مجتہد کا ہر معاملے کو جانچ لینا اور سمجھ لینا ناممکن بات یے۔ مثال کے طور آیت اللہ خامنہ ای اصول فقہ کے ماہر مانے جاتے ہیں۔ لیکن بعض دوسرے معاملات میں سیستانی صاحب یا مکارم صاحب کو زیادہ ماہر سمجھا جاتا یے۔

ایک تجویز اس مسئلہ میں یہ دی گئی ہے کہ ایک بورڈ بنا دیا جائے جس میں مختلف امور کے ماہر مجتہدین موجود ہیں۔ اور لوگ اپنے مسائل کے لیے قائم کردہ بورڈ کی طرف رجوع کریں ۔ مثال کے طور کوئی مجتہد میڈیل سائنس کے معاملات پر مہارت رکھتا یے۔ تو اس طرح کے جو بھی مسائل پیش آئیں اس کی طرف بورڈ مسئلہ بھیج دے۔ اور وہ جو جواب دے اس کو بورڈ کی طرف سے نشر کردیا جائے

لیکن یہ ابھی تک قابل عمل شاید اس لیے نہیں ہوسکا ہے کیونکہ مجتہد کا اپنا قد اس بورڈ کی وجہ سے گھٹ جائے گا۔

انسان کسی بھی دینی مسئلہ میں سب سے پہلے تو کوشش کرے کہ خود استنباط کی صلاحیت پیدا کرے اور یہ سب سے بہترین عمل ہے اور وقت نہیں ہے تو کسی بھی عالم کی طرف رجوع کرلے

امید ہے عنداللہ ماجور ہوگا

ابو جون رضا

4

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *