دنیا میں گزاری ہوئی زندگی

یَّوۡمَ یُنۡفَخُ فِی الصُّوۡرِ وَ نَحۡشُرُ الۡمُجۡرِمِیۡنَ یَوۡمَئِذٍ زُرۡقًا۔

  1. جس دن صور پھونکا جائے گا اور اس دن ہم مجرموں کو یوں جمع کریں گے کہ ان کے جسم اور آنکھیں نیلگوں ہوں گیo

یَّتَخَافَتُوۡنَ بَیۡنَہُمۡ اِنۡ لَّبِثۡتُمۡ اِلَّا عَشۡرًا۔

  1. آپس میں چپکے چپکے باتیں کرتے ہوں گے کہ تم مشکل سے دس دن ہی ٹھہرے ہوگےo

نَحۡنُ اَعۡلَمُ بِمَا یَقُوۡلُوۡنَ اِذۡ یَقُوۡلُ اَمۡثَلُہُمۡ طَرِیۡقَۃً اِنۡ لَّبِثۡتُمۡ اِلَّا یَوۡمًا۔

  1. ہم خوب جانتے ہیں وہ جو کچھ کہہ رہے ہوں گے جبکہ ان میں سے ایک عقل و عمل میں بہتر شخص کہے گا کہ تم تو ایک دن کے سوا ٹھہرے ہی نہیں ہوo

(سورہ طہ 102-104)

ان آیات پر غور کیجئے۔

ننانوے فیصد افراد مرتے ہی سلا دیے جائیں گے۔ اور صور پھونکنے پر ہی جاگیں گے۔ ایک فیصد افراد ہی مرتے ہی جنت یا جہنم کا مزا چکھیں گے۔

قران کریم نے برزخ کو ایک آڑ قرار دیا ہے۔ یعنی دنیا میں رہنے والے اور مرجانے والے کے بیچ میں ایک آڑ ہے۔ مردے کو یہاں کا پتا ہے اور نہ ہی ہمیں وہاں کا پتا لگ سکتا یے۔

اسی لیے جب مرنے والا جاگے تو آپس میں لوگوں سے پوچھے گا کہ ہم دنیا میں کتنے روز رہے؟ کوئی کہے گا کہ ایسا لگتا یے کہ دس دن رہے ہیں !

پھر جو زیادہ عقل والا ہے وہ کہے گا کہ بس ایسا ہی ہے جیسے ایک یوم ٹہرے۔ یعنی ایک رات اور ایک دن۔

یہاں برزخی حیات کا اس نے ذکر نہیں کیا۔ اگر وہ برزخ میں کسی محل میں رہا ہے یا عذاب سہتا رہا ہے تو اس کو یہ یاد ہونا چاہیے۔ جبکہ وہ اس کا ذکر نہیں کرتا ۔ بلکہ دنیاوی زندگی کو یاد کرتا یے۔ جس کا حساب اسے دینا ہے۔

سورہ یس میں اس کو یوں بیان کیا گیا ہے۔

گھبرا کر کہیں گے: “ارے، یہ کس نے ہمیں ہماری خواب گاہ سے اُٹھا کھڑا کیا؟” “یہ وہی چیز ہے جس کا خدائے رحمان نے وعدہ کیا تھا اور رسولوں کی بات سچی تھی” (آیت 52)

سورہ طہ کی آیات کی دنیا میں مثال موجود ہے۔ اگر ہم اپنی زندگی کاجائزہ لیں تو ہمیں خاص خاص واقعات ہی یاد ہونگے۔ جبکہ روزانہ کے معاملات کہ ہم نے کیا کھایا۔ کونسے کپڑے پہنے، کس بات ہر ہنسے اور کس پر رنجیدہ ہوئے اور کس سے ملاقات کی، یہ ایک مہینے پہلے کی کسی تاریخ کا بھی یاد نہیں ہوگا۔

تو جتنی باتیں یاد ہیں ان کو اگر اکھٹا کیا جائے تو وہ دنیاوی دس دن بھی نہیں بنتے۔

اگر فلسفیانہ نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو صرف انسان کا شعور ہی زندہ رہے گا جو مرنے کے بعد ایک طویل خواب دیکھنا شروع کرے گا جس میں وہ سختی اور مشکلات کو اسی طرح سے محسوس کرے گا جیسے ہم روز مرہ زندگی میں خواب میں بعض اوقات خوش اور بعض اوقات غمگین ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ بعض اوقات ہمارے آنسو بھی خواب میں نکل آتے ہیں۔ اور جب ہم جاگتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ ہم خواب دیکھ رہے تھے

مرنے والے کی اولاد جب اپنے مرحومین کے لیے دعا کرتی ہے تو ہوسکتا ہے خواب دیکھنے والا خواب میں کسی قسم کی راحت کو محسوس کرے۔ جیسے سخت گرمی اور حبس کے عالم میں آپ کسی جگہ مقید ہوں اور اچانک سے کسی درز سے یا کواڑ کے کھل جانے سے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آپ کو محسوس ہونے لگے۔

اسی طرح سے اعلی شعور والے جو شعور مطلق سے قربت پاتے ہیں۔ ممکن ہے کہ ان کا شعور اولاد کی کسی خوشی یا غمی کے موقعے پر دنیا میں رہنے والے افراد سے شعوری طور پر خدا کی اجازت سے کچھ لمحات کے لیے منسلک یا کنیکٹ ہوجاتا ہو اور دنیا میں موجود شخص صبح نیند سے بیدار ہو کر گھر والوں کو بتاتا ہے کہ والدہ رات خواب میں آئی تھیں اور پریشان لگ رہی تھیں یا خوش ہو رہی تھیں تو لوگ تعبیر پیش کرتے ہیں کہ تم سخت بیمار ہوئے ہو یا آج تمہاری شادی ہے تو تمہاری مرحومہ والدہ کو خبر ہوگئی ہے۔ اسی لیے وہ خواب میں تشریف لائی تھیں۔

واللہ اعلم بالصواب

ابو جون رضا

3

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *