ایران میں جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کی ولادت پر منعقدہ ایک تقریب سے رہبر معظم ایت اللہ علی خامنہ ای نے خطاب کیا۔ ان کے خطاب میں دو باتیں قابل غور تھیں۔
“ایک یہ کہ صلاحیتوں کے اعتبار سے مردوں اور عورتوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ صرف جسمانی طاقت کے حساب سے معاشرہ میں مختلف کاموں کی درجہ بندی کی گئی ہے۔دوسرا یہ کہ مغرب نے یہ چاہا تھا کہ عورت کو گھر سے باہر نکالے کیونکہ اس میں بھی سرمایہ دار کا فائدہ تھا۔ فیکٹریوں اور دوسرے محنت طلب کاموں میں عورت کی شرکت برابر کی ہوتی تھی مگر ان کو تنخواہ مرد کے مقابلے میں کم ملتی تھی”
اس کی مثال یہ ہے کہ دنیا کے امیر ترین لوگوں کی فہرست میں شروع کے دس افراد میں کسی خاتون کا نام موجود نہیں ہے۔
یہاں تک کہ بالی ووڈ انڈسٹری میں ہیروئنز کا ہمیشہ یہ شکوہ رہا کہ فلم میں بنیادی کردار ہونے کے باوجود ان کو معاوضہ مرد ہیرو سے کم ہی ملا۔
پاکستانی معاشرہ کا جائزہ لیں تو یہاں بیمہ پالیسی کے اشتہارات، کشمیر بناسپتی اور برائٹ کے اشتہارات ہمارے والدین-اولاد، ماں-بچے، شوہر-بیوی کے تعلق کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ کاموں کی تقسیم کو بھی ذہن پر کندہ کرتے ہیں اور ان کو دوام بھی بخشتے ہیں۔ اس سب میں کوئی ایجاد تو بہت دور کی بات ہے، کوئی اختراع، کسی روایت سے انحراف تک نہیں کیا جاتا۔ اِس کی سب سے بڑی وجہ پدرسری نظام کو ہونے والے فوائد ہیں۔ اس نظام میں آپ برابری کے کسی اصول کی بجائے محض مطیع بنانے یا مطیع ہونے کا ہی تصور رکھتے ہیں۔ اس سے باہر نکلنا آپ کو حواس باختہ کر دیتا ہے، اس لیے آپ باہر نکلنا ہی نہیں چاہتے اور اسی سیٹنگ کو ’فطری‘ قرار دے دیتے ہیں۔
عمر شریف کہتا تھا کہ شادی کے دس سال بعد میاں بیوی عادات میں اتنے گھل مل جاتے ہیں کہ ان کی شکلیں تک آپس میں ملنے لگتی ہیں۔
ہمارے ’کلچر‘ میں شوہر اور بیوی کے طے شدہ کرداروں کو ابدی، مقدس، لازمی، فطری، حیاتیاتی اور ’رواجی‘ سمجھ لینا اس تعلق کی سب سے بڑی نحوست ہے جس کا کم و بیش شکار ہم سبھی ہوتے ہیں۔ ہم لوگ اپنے امی ابو کے ’’آئیڈیل‘‘ تعلق کے تحت بیوی سے بھی ماں جیسی اطاعت کا تقاضا کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ بہن کی ساس جلد فوت ہو جانے یا مکار نند جلد از جلد بیاہے جانے کی تمنا بھی رکھتے ہیں۔
اِس سب میں ہم صرف ایک چیز نظر انداز کرتے ہیں اور وہ ہے تعلق کی تعلیم۔
اپنی ذہنی تربیت کیے بغیر ہم شادی کے تعلق میں کبھی خوشگوار نہیں رہ سکتے۔ ’’آؤٹ آف دی باکس‘‘ سوچے بغیر یہ تعلق خوشگوار نہیں ہو سکتا۔
میرے خیال میں اس طرح سے یقیناً غلطیاں مزید ہوں گی۔ لیکن وہ میری اپنی ہوں گی، نہ کہ میرے ابا کی غلطیوں کی تقدیس ہوگی۔
ابوجون رضا