یہ اب علیحدہ سے ایک ریسرچ کا موضوع ہے۔ اس میں ہم مختلف ادوار میں قوموں کے رویوں کا جائزہ لیتے ہیں اور اس سے جو تاریخ وجود میں آتی ہے اس کا مطالعہ کرتے ہیں۔
زیادہ تر دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ لوگ جدیدیت سے اتنی جلدی مانوس نہیں ہوتے۔ شاید کوئی یہ سمجھے کہ جدیدیت آج کی اصطلاح ہے لیکن ناصر عباس نیّر کے مطابق اس کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسانیت کی تاریخ ہے
ہر دور میں یہ مسائل جنم لیتے ہیں کہ زمانہ آگے بڑھ جاتا ہے اور پرانی نسل, نئی نسل کے افکار اور انداز سے پریشان نظر آتی ہے۔۔
فلسفہ تاریخ ہمیں بتاتا ہے کہ علمی دنیا میں بھی یہی صورت حال واقع ہوتی ہے۔ پرانے افکار پر تنقید اور نئے افکار کو مشکل سے قبول کیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر قدیم زمانے میں متقدمین علماء کا نظریہ تھا کہ مسلمانوں کے علاوہ باقی تمام مذاہب کے پیروکار نجس ہوتے ہیں۔ چاہے اہل کتاب ہی کیوں نہ ہوں۔
ایران میں ایک جلیل القدر عالم نے عیسائیوں اور یہودیوں کے پاک ہونے کا فتوی دیا تو ان پر طعن و تشنیع کا بازار گرم ہوگیا تھا۔ اور لوگوں نے ان کی طرف رجوع کرنا بند کردیا تھا۔
وجہ یہی تھی کہ اس زمانے کے مذہبی لوگوں کے خیال میں فرنگی نجس ہوتے تھے۔
اب اگر ان کو مسلمانوں کی طرح پاک قرار دیا جائے تو بنیاد پرست لوگوں کو یہ بات ہضم نہیں ہوتی تھی
وقت گزرا اور پھر بہت سے جلیل القدر علماء نے اہل کتاب کے پاک ہونے کا فتوی دیا۔ اور اب اہل کتاب کو پاک مانا جاتا یے۔
آج زمانہ آگے بڑھ گیا یے اور اب جو بحث علمی حلقوں میں ہورہی ہے وہ یہ ہے کہ
” تمام انسان پاک ہیں ؟
اور اس کو پرانے علماء کو قبول کرنے میں تامل کا سامنا ہے۔ اسی طرح سے عوام کے لیے یہ بات سمجھنا ابھی مشکل ہے کہ ہندو یا بدھ مت کے پیروکار کیسے پاک ہوسکتے ہیں؟
لیکن آنے والے دور یہ بات نئی نسل کے لیے قبول کرنا مشکل نہیں ہوگا۔
ابو جون رضا