یہ ایک مشہور دعا ہے .اس کو امام مہدی کے فراق میں اہل تشیع پڑھتے ہیں اور اس کو بہت معتبر مانا جاتا ہے۔
برصغیر میں اس دعا کا جو نسخہ رائج ہے وہ سید ابن طاؤوس نے مصباح الزائر میں نقل کیا ہے اور وہیں سے مفاتیح الجنان کے مصنف نے اس کو نقل کیا ہے۔
اس دعا پر اشکالات تو بہت ہیں۔ سردست صرف دو باتوں کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا۔
ایک یہ کہ عوام کو کبھی بھی تدبر کی طرف راغب نہیں کیا جاتا۔ بس طوطے کی طرح الفاظ رٹنے پر لگا دیا جاتا ہے ۔ عوام ثواب کے لالچ میں ہر طرح کے کام انجام دینے کے لیے تیار ہوجاتی ہے۔
دوسرا یہ کہ علماء جب کسی غلط بات کا دفاع کرنے کھڑے ہوتے ہیں تو تاویل کے رستے پر قدم قدم پر ٹھوکریں کھاتے نظر آتے ہیں۔
اب اس کی مثال پر نظر ڈالتے پیں۔
دعائے ندبہ کا ایک جملہ ملاحظہ کریں
“وَبَعَثْتَہُ إلَی الثَّقَلَیْنِ مِنْ عِبَادِکَ وَأَوْطَأْتَہُ مَشارِقَکَ وَمَغارِبَکَ وَسَخَّرْتَ لَہُ الْبُرَاقَ ‘وَعَرَجْتَ بِرُوْحِہِ’ إلَی سَمَائِکَ”
“اور ان کو ثقلین (جن و انس) کی طرف بھیجا ان کیلئے سارے مشرقوں مغربوں کو زیر کر دیا براق کو انکا مطیع بنایا اور ‘ ان کی روح کو ‘ آسمان پر لے گیا”
یہ نبی کریم کی تعریف میں جہاں اس دعا میں مختلف جملے استعمال ہوئے ہیں۔ وہیں یہ جملے بھی موجود ہیں۔
اہل تشیع کا عقیدہ ہے کہ رسول اکرم کو معراج جسمانی اور روحانی دونوں حاصل ہوئیں۔ اور صرف روحانی معراج کے قائل کو علامہ مجلسی شیعت سے خارج قرار دیتے ہیں۔
علامہ مجلسی اس سلسلہ میں کہتے ہیں:
”معراج جسمانی کا عقیدہ رکھنا واجب ہے ، یعنی یہ کہ رسول اکرم اپنے مبارک بدن کے ساتھ آسمانوں تک گئے۔ اس سلسلے میں فلسفیوں کی بات نہ سنو جو وہ لوگ کہتے ہیں
اگر معراج جسمانی ہو، تو افلاک میں خرق اور التیام (پھٹ جانا اور مل جانا) لازم آئے گا۔ ! یہ کھوکھلی اور بے بنیاد بات ہے اور عقیدہٴ معراج ضروریات دین میں سے ہے اس لیے اس کا انکار کفر آمیز ہے۔
( اعتقادات ، باقر مجلسی)
اب غور کیجئے کہ دعائے ندبہ میں صرف روح کو آسمان پر لے جانا جیسے الفاظ شیعت کے معراج کے حوالے سے عقیدہ کے خلاف ہیں۔اسی بنیاد پر بعض وہ فلاسفہ جو معراج جسمانی اور معاد جسمانی کا عقیدہ نہیں رکھتے انہیں کفر و فسق کا عنوان دیا گیا ہے ۔
یہ دعا جن قدیم دعاؤں کے نسخوں میں ملتی ہے اس دور میں بطلیموسی فلکیات (زمین ساکن ہے) کے نظریات درست سمجھے جاتے تھے اور ”شیخ احمد احسائی “ جن کے نام سے شیخیہ فرقہ مشہور ہے , وہ جب افلاک کے خرق و التیام کے مسئلے کی وضاحت میں ایک ایسے مشکل مقام پر پہنچے اور معراج جسمانی کو ھیئت بطلیموس کی فکر کے دائرہ میں اس زمانے میں حل و فصل نہ کرسکے تو برزخی بدن کے معتقد ہوئے اور اسے ”ھور قلیا“ کا نام دیا تو علمائے شیعہ نے ان پر اعتراضات کی بوچھاڑ کر ڈالی اور ان کو کفر کی منزل پر پہنچا دیا۔
شیخ احمد اپنے عقیدے کی وضاحت ”معراج ھورقلیائی“ کے متعلق تحریر کرتے ہیں:
جسم جس قدر صعودود عروج کی حالت میں بلند ہوتا جائے ہر کرہ کے مربوط عناصر کو وہیں ترک کر کے اوپر جاتا ہے
جیسے عنصر ہوا کو کرہٴ ہوا میں عنصر آگ کو کرہٴ آتش میں۔ او رواپسی کے وقت جو کچھ وہاں ترک کیا ہوتا ہے واپس لے لیتا ہے ۔اس بنا پر پیغمبر اکرم نے شب معراج بدن کے عناصر اربعہ میں سے ہر ایک کو اپنے کرہ میں ترک کیا، اور وہ بدن جس میں یہ عناصر اربعہ موجود نہیں تھے اس کے ساتھ معراج پر گئے ہیں۔
(جوامع الکلم ،احمد احسائی ،رسالہٴ قطیفیہ ،ص۱۲۷)
میں نے دو تین نسخے مفاتیح الجنان کے دیکھے جن میں یہی الفاظ درج ہیں۔ صرف ایک نسخہ جس کو قدیم ترین نسخہ کہا جاتا ہے وہ آیت اللہ مرعشی نجفی کے کتب خانے میں موجود ہے اس کے بارے میں مکارم صاحب یہ فرماتے ہیں کہ
“”دعائے ندبہ کا قدیمی ترین منبع کتاب مزار قدیم ہے، جس کا خطی نسخہ ۱۸۱ صفحات پر مشتمل ہے جس کے ہر صفحہ میں سترہ سطریں ہیں جو آیت اللہ مرعشی صاحب کے عمومی کتاب خانہ میں موجود ہے ۔اس نسخہ میں جس کا نمبر ۴۶۲ ہے ، مذکورہ فقرہ صفحہ نمبر ۱۷۴ میں ”و عرجت بہ “ ذکر ہوا ہے ۔
دعائے ندبہ کے لیے تیسرا موجودہ منبع سید ابن طاووس کی گراں قدر کتاب مصباح الزائر ہے ۔اس کتاب کے مطبوعہ نسخہ میں مذکورہ فقرہ بجائے ”وعرجت بہ“ ”وعرجت بروحہ“ کی تعبیر کے ساتھ ذکر ہوا ہے
یہ نسخہ یقینا غلط ہے”
پھر آپ مزید فرماتے ہیں۔
“کتاب مصباح الزائر کے صحیح نسخہ میں بھی ”عرجت بہ“ تھا لیکن افسوس یہ کہ بعد کے نسخوں اور فوٹو کاپیوں میں” عرجت بہ “ کی عبارت ”عرجت بروحہ “ کی تعبیر میں مورد تصحیف (لفظو ں کی تبدیلی ) واقع ہوئی ہے۔
اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہی تصحیف(لفظوں کی تبدیلی ) شدہ نسخہ علامہ مجلسی کے ہاتھوں لگا، انہوں نے دعائے ندبہ کو اسی تصحیف شدہ نسخہ سے نقل کیا”
مفاتیح الجنان میں بھی مصباح الزائر سے دعائے ندبہ نقل ہوئی ہے اور عوام انہی جملوں کو رٹو طوطے کی طرح رٹتی ہے۔
علماء یہ جانتے ہیں کہ جملے میں اضافہ یا تحریف کی گئی ہے اور اس کا اعتراف بھی کرتے ہیں مثال کے طور پر یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ امام زمانہ نے کسی عالم کو منع کیا کہ دعائے ندبہ کا یہ جملہ مت پڑھو ۔ یہ غلط ہے۔ لیکن پھر بھی علماء عوام کی خوشنودی کو مد نظر رکھتے ہوئے تاویل کرنے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
اس کی مثال ایسے ہے کہ کبھی کہتے ہیں کہ روح کا اطلاق جسم پر بھی ہوتا ہے۔ اور کبھی “خصال” کے حوالے سے روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم کو سو سے زیادہ مرتبہ معراج نصیب ہوئی۔ ہوسکتا ہے ایک دفعہ آپ کی روح آسمان پر گئی ہو اور یہ روحہ کا جملہ اس کی طرف اشارہ کرتا ہو وغیرہ ۔
( جاری)
ابو جون رضا
–