قدیم زمانے میں انسان جب رات میں فارغ ہوتا تھا تو اس کا محبوب مشغلہ ستاروں کو تکنا ہوتا تھا۔ رات کو آسمان بہت دلچسپ ہوتا ہے۔ آپ چاہیں تو مختلف شکلیں بھی ذہن میں تراش سکتے ہیں۔ سترویں صدی میں جب یورپی جہاز رانوں نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی تو انہوں نے اپنی دلچسپی کی چیزیں وہاں لٹکا دیں۔ مثلا دوربین ، کمپاس، جہازوں کے بادبان وغیرہ۔ آج ہم اگر نگاہ اٹھائیں گے تو شاید سب سے پہلے موبائل ، ٹیبلٹ آسمان میں لٹکا دیں گے۔
علم فلکیات ہمیشہ سے انسانی دلچسپی کا مرکز رہا ہے۔ قدیم انسان ان سے اندازہ لگاتا تھا کہ فلاں موسم کی آمد ہے اور اب کونسا میوہ اور پھل آنے والا ہے۔ کونسا جانور اب شکار کے لیے میسر ہوگا، ہمیں فصل بونی اور پھر کاٹنی ہے تو کونسا موسم بہتر رہے گا وغیرہ۔ انسان جانتا تھا کہ سورج چاند اور ستاروں کی حرکات کا جتنا بہتر علم ہوگا اتنا ہی وہ صحیح پیشن گوئی کرسکے گا۔
اس کے بعد آلات بنے، ریکارڈ رکھے جانے لگے اور اب چاند کی مکمل حرکت اور مستقبل میں اس کا کس دن، کس وقت، کیا مقام خلا میں ہوگا، انسان اب اس کی درست پیشن گوئی کرنے کے لائق ہے۔
بدقسمتی سے وقت گزرنے کے ساتھ اس علم پر بھی ضعیف الاعتقادی اور توہمات نے حملہ کردیا۔ کاہن اور جادوگر ستاروں کا علم رکھنے کا دعوی کرتے تھے اور لوگوں کو مستقبل کے حالات بیان کرتے تھے۔
علم نجوم رکھنے والے دعوی کرتے ہیں کہ آپ پیدائش کے وقت جس سیارے کے زیر اثر ہوں گے وہ آپ کی زندگی پر ہمیشہ اثر انداز ہوگا۔ جب سیارہ انفرادی زندگی پر اثر انداز ہوتا یے تو یہ حکومتوں کے زوال اور عروج پر بھی اثر انداز ہوتا ہوگا۔ اس انفرادی علم نجوم کا آغاز اسکندریہ میں دو ہزار سال پہلے ہوا تھا۔ اور پھر یہ ہر جگہ پھیل گیا۔
مختلف زبانوں کے بہت سے لفظ سیاروں کے اثرات کے تصور کی وجہ سے وجود میں آئے۔ مثلا انفلوئنزا کا مطلب “سیاروں کا اثر” تھا اور “ڈیزاسٹر (Disaster)” کا مطلب برا ستارہ یا نحوست لیا جاتا تھا.
میں نے آج ” یہ ہفتہ کیسا رہے گا” کو انٹرنیٹ پر چیک کیا۔ میرا اسٹار کینسر ہے۔ اور مجھے یہ معلومات ایک سائٹ سے ملیں۔
ملاحظہ کیجئے۔
آپ کا ہفتہ – سرطان:( 24 اکتوبر تا 30 اکتوبر)
“رضا کارانہ طور پر زندگی کے اہم معاملات میں بات چیت آپ کی حوصلہ افزائی کا باعث بنے گی۔ نئے خیالات میں اور معاملات میں شامل ہو جائیں گے۔ اپنے اردگرد موجود لوگوں کے ساتھ ہم خیالی آپ کو اپنی بات منوانے میں آسانی پیدا کردے گی۔ جو کہ آپ کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ محبت کے معاملات میں امن کا احساس آپ کے پیاروں کی زندگی کو مزید کنٹرول کرے گا۔ اپنی بنیادی چیزوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ابتدا میں ہی کچھ چیزوں پر کنٹرول آپ کے لئے آسانیاں پیدا کر دیں گی”
ان جملوں پر غور کیجیے۔ یہ سارے مبہم جملے ہیں۔ ان سے ہر کوئی اپنے مطلب کے معنی نکالے گا۔ اس کے علاوہ میں نے ایک اور سائٹ پر چیک کیا تو اس پر کچھ اور کہانیاں اس ہفتے کے حوالے سے لکھی ہوئی نظر آئیں۔ تعجب ہے کہ دو ماہر علم نجوم بھی آپس میں متفق نہیں ہیں۔
یہ ستارے اور سیارے شادیاں بھی کرواتے ہیں۔ اور تڑوا بھی دیتے ہیں۔ اللہ معلوم ان کو لوگوں کے گھریلو معاملات سے اتنی دلچسپی کیوں ہے۔ مثلا شادی سے پہلے دیکھا جاتا ہے کہ کونسا مہینہ بہتر رہے گا۔ شعبان کے مہینے میں جلتا بجھتا چاند ہوتا ہے۔ اس مہینے میں کی گئی شادی کامیاب نہیں ہوتی۔ فلاں دن امام کی شادی ہوئی تھی تو یہ دن سعد ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب تک امام نے شادی نہیں کی تھی تو وہ دن کیسا تھا؟
میری خالہ کے قرب میں رہنے والی ایک فیملی نے اپنے بچے کی شادی کربلا میں کی۔ لڑکا اور لڑکی کے گھر والے پاکستان سے سفر کر کے کربلا گئے اور وہاں شادی ہوئی کہ برکت ہوگی، امام کی دعا ملے گی وغیرہ۔
چھ مہینے بھی شادی نہیں چل سکی اور طلاق ہوگئی۔
زندگی کی گاڑی قبروں پر جاکر شادیاں کرنے سے نہیں چلتی بلکہ عقل سے، گیان سے، صبر و تحمل اور برداشت سے آگے بڑھتی ہے۔ آپ لاکھ ستاروں کی چالیں دیکھ کر شادی کریں۔ میاں بیوی کا مزاج آپس میں نہیں ملے گا، دونوں اپنے خول میں بند رہیں گے تو چندا ماما آکر صلح صفائی اور پیار محبت پیدا نہیں کریں گے۔
نبی کریم کی ایک حدیث جو مشکاتہ المصابیح میں موجود ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ چار خصلتیں میری امت میں جاہلیت کے دور کی ہیں۔ جن میں دوسروں کے نسب پر طعن (میں سید ہوں ، فلاں شیخ ہے) اور ستاروں سے بارش طلب کرنا شامل ہے۔ (اس روایت کو البانی نے صحیح قرار دیا ہے)
دعا ہے کہ پروردگار ہمیں دین کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور شرک اور توہمات سے محفوظ رکھے
ابو جون رضا