مختار مسعود صاحب نے انقلاب ایران کو قریب سے دیکھا ہے۔ وہ ایران میں پاکستانی سفارت خانے میں تعینات رہے اور اس کے علاوہ انہوں نے انقلاب سے پہلے شاہ کا دور بھی دیکھا تھا۔ ان کی ایران کی یاداشتیں ” لوح ایام” کے نام سے شائع ہوئیں۔ میرے پاس اس کا چودھواں ایڈیشن ہے۔
اس میں ایک واقعہ وہ پتھروں کے حوالے سے لکھتے ہیں۔
” میں گرمیوں کی چھٹیوں میں امرتسر آیا ہوا تھا۔ دو تین ہم عمر کزن ہمراہ تھے۔ رام باغ گیٹ کے باہر ایک انگوٹھیاں اور نگینے بیچنے والا پتھروں کے خواص بیان کر رہا تھا۔ غربت، بیماری، بے روزگاری، تنزلی، معطلی، گرفتاری ، گمشدگی، بے اولادی ، سایہ، دورہ، غرض زندگی کا کوئی ایسا مسئلہ نہ تھا جس کا حل کسی نہ کسی پتھر میں پوشیدہ نہ ہو۔ ایک پتھر ایسا بھی تھا جس کی انگوٹھی پہننے والے کے تکیے کے نیچے سے ہر روز نئے نوٹ نکلتے ہیں۔ اس شخص کے پاس خزانے کی ساری کنجیاں تھیں، کامیاب ہونے کے لیے ہر طرح کا پتھر تھا مگر پھر بھی وہ ٹاٹ بچھائے خاک پھانک رہا تھا۔
اس نے ایک بھورے داغدار پتھر کی طرف اشارہ کیا اور کہا۔
اس میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی تصویر نظر آتی ہے۔ وہ دربار سجاتے ہیں۔ جن کو حکم دیتے ہیں۔ وہ ملکہ سبا کا تخت اٹھا کر لے آتا ہے۔ اس انگوٹھی کے پہننے والے کے سارے کام خود بخود ہوجاتے ہیں۔ طالب علم ہو تو علم کی ملکہ اس کے تابع ہوجاتی ہے۔
یہ کہہ کر اس نے ہماری طرف دیکھا۔
پڑھائی کی مشقت آسان بنانے کی خاطر سارے کزن مٹھی کی دوربین بنا کر ایک سرے پر انگوٹھی رکھ کر اور دوسرے سرے سے آنکھ لگا کر معجزہ دیکھنے کی کوشش کرنے لگے
پتھر والا کہتا، جو سایہ نظر آرہا ہے وہ حضرت سلیمان ہیں۔ دیکھو اب وہ سایہ چل رہا ہے، سامنے سے جن آرہا ہے۔ وہ سجدے میں گر گیا ۔
کیوں ؟ ٹھیک ہے نا؟ مریل سی آواز میں سب نے کہا ٹھیک یے اور آنکھیں ملتے ہوئے کھڑے ہوگئے۔
میری باری آئی ۔ انگوٹھی والا کہتا رہا کہ یہ ہورہا ہے اور اب وہ ہورہا ہے مگر میں نے صاف آواز میں اردو میں جواب دیا۔ کچھ بھی نہیں ہورہا۔ خاک بھی نہیں ۔
وہ شخص ناراض ہوگیا اور وہ بے نقط سنائیں جن کا خلاصہ یہ تھا کہ بعض اشخاص کی آنکھوں کے آگے پردہ ہوتا ہے اور بعض سے حضرت سلیمان خود پردہ کرلیتے ہیں۔
اس واقعہ کو ایک مدت گزر گئی مگر اس کی کسک دل میں باقی رہی۔
میں نے مشاہدہ کیا، پڑھا، پوچھا ، غور کیا۔ بالآخر اس نتیجے پر پہنچا کہ جو لوگ مذہب کو مصلحت کی انگشتری میں نگینہ کی طرح سجا لیتے ہیں وہ ہدایت اور عقیدہ سے دور ہوجاتے ہیں۔ اور ان کی وجہ سے بے علم اور سادہ لوگ بھی راستہ سے بھٹک جاتے ہیں۔ ایسی نظر بندی ہوتی ہے کہ جو نہیں ہے وہ بھی نظر آنے لگ جاتا ہے۔
اس مقام پر مذہب اور تجارت کا فرق مٹ جاتا ہے۔ عبادت اور تماشا ایک ہوجاتے ہیں۔ توہمات ، بدعات اور خرافات کی ہو حق ہوتی ہے۔
ایک دن یہ دونوں گروہ آپس میں جھگڑیں گے۔ ایک دوسرے پر الزام رکھیں گے۔
اس دن انہیں یاد دلایا جائے گا کہ ایک ہادی (نبی کریم) آیا تھا ، ایک کتاب لایا تھا۔
ہدایت کی راہ اور عقیدے کی درستی اسے نصیب ہوئی جس نے صرف ان کی پیروی کی تھی۔
اے گرفتار افسانہ و افسوں
اے پرستار ہیچ و زبوں
کیا تم نے کتاب و صاحب کتاب کا حق ادا کردیا ؟ “
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ۔
ابو جون رضا